اسلام آباد ( میاں منیر احمد) کیا اسرائیل پر ایران کا حملہ دکھاوے اور خانہ پری کے لیے تھا؟ جسارت کے اس سوال پر سیاسی راہنمائوں‘ تجزیہ کاروں اور سفارتی امور کے ماہرین نے کہا کہ ایران کا اسرائیل پر حملہ بھر پور ضرب تھی‘ ایران نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم توڑ کر رکھ دیا ہے‘ ایران کا حملہ دکھاوے کا حملہ نہیں تھا‘ پورے 400میزائل فائر کیے ہیں اور اسرائیل نے ان میں 182میزائل کو روکنے کا دعویٰ کیا ہے‘ پاکستان مسلم لیگ( ض) کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے رکن محمد اعجاز الحق نے کہا کہ ایران کا اسرائیل پر حملہ پہلے سے زیادہ طاقتور تھا۔ ایران کی جانب سے ہونے والا حملہ اپریل کے مقابلے میں زیادہ سنگین تھا اور ایران نے اعلان کیا ہے کہ اگلا حملہ اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوگا‘ اس حملے کے بعد اسرائیل سوچے گا تاہم اسرائیل کی جانب سے ایران پر کسی بھی فوجی ردعمل کا ایرانی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کا امکان نہیں‘ ایران کا دفاعی نظام مضبوط ہے انہوں نے اپنا تجزیہ دیا کہ اسرائیل اپنی طاقت اور عزم کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل ناکام ہوگا اور وہ فوجی طور پر کچھ ایسا حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے لیکن فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے دیکھا کہ ایران نے مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر میزائلوں کی بارش کر دی ہے تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ ایران نے 400 میزائیل فائر کیے ہیں اور اس نے اسرائیل کا بھرم توڑ کر رکھ دیا ہے اور دنیا کو بتا دیا ہے کہ اسرائیل کوئی ناقابل تسخیر نہیں ہے‘ انہوں نے کہا کہ ایران کی جانب سے اسماعیل ہنیہ اور سید حسن نصراللہ سمیت اپنے شہدا کے خون کا انتقام لینے کے لیے داغے جانے والے میزائلوں کے بعد امریکا اور اسرائیل بری طرح بوکھلائے ہوئے ہیں۔ ایران نے مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں واقع مختلف اہداف کو اپنے سیکڑوں میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ایران کے اس وسیع حملے کا اصل ہدف صہیونی حکومت کی فوجی تنصیبات اور موساد کے جاسوسی کے مراکز تھے‘ ممتاز تاجر راہ نما اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق نائب صدر چودھری سجاد سرور نے کہا کہ اس میزائل حملے کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی خبر دی ہے کہ غاصب صیہونیوں کے ٹھکانوں پر ایران کے سیکڑوں میزائل گرنے کے بعد مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں پے در پے دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ اس دوران تل ابیب میں واقع بن گوریون ائرپورٹ مکمل طور پر غیر فعال ہو گیا ہے۔ لہٰذا یہ حملہ کسی بڑی قوت کے ساتھ کیا گیا ہے اس لیے تو اسرائیل نے اپنے میڈیا سے کہا ہے کہ وہ میزائلوں کے اہداف پر لگنے کی کسی طرح کی کوئی ویڈیو یا تصویر سوشل میڈیا پر شیئر نہ کریں۔ یہ بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ میزائل پہلے سے مقرر کردہ اہداف پر لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی میزائل داغے جانے کے بعد نابلس اور رام اللہ سمیت مغربی کنارے کے فلسطینیوں نے جشن منایا ہے‘ فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے مرکزی رہنما اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ ایران کے حملے کے بعد خبر آئی کہ صہیونی حکومت کے سربراہ نیتن یاہو اور متعدد اسرائیلی وزیر کئی گھنٹوں سے قدس شہر میں واقع تہہ خانے میں چھپ گئے ‘ صیہونی وزیر جنگ یواو گالانٹ بھی ایران کے میزائل حملے کے خوف سے تل ابیب میں واقع وزارت جنگ کی عمارت کے ایک تہہ خانے میں چھپ گیا تھا‘ اس حملے کے بعد تحریک حماس نے فلسطین اور لبنان پر صہیونی دشمن کے مظالم کے خلاف ایران کے وسیع میزائل حملے کی مبارکباد پیش کی ہے۔ ایران کے میزائل حملے نے صہیونی حکومت کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شہید سید حسن نصر اللہ کی یاد میں منعقدہ تقریب میں کہا کہ امت اسلامیہ کو عظیم سپہ سالار سید حسن نصراللہ کی شہادت پر شدید دکھ اور درد کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی کے ٹریڈرز رہنما عمران شبیر عباسی نے کہا کہ ایران کے حملے کے بعد اب اسرائیل اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کے ساتھ چلے گا اور اور اسے مسلم امہ کے شدید حملے کا بھی منتظر رہنا چاہیے ایرانی میزائلوں کے سیلاب نے دنیا کے تمام آزاد لوگوں کو خوش کر دیا ہے انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین اور لبنان کے دفاع کے لیے اس جنگ میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ شریک ہیں۔ ہم پاکستانی قوم صہیونی منصوبے کے ہر حربے کے خلاف ہے‘فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی واپسی تک تمام صلاحیتوں کے ساتھ اپنی حمایت جاری رکھیں گے مسلم ممالک جارحیت کے مقابلے میں اپنے دفاع کے جائز حق کا بھرپور جواب دینے سے پیچھے نہیں رہ سکتے اور کسی بھی سطح کے شریر جارح کو اپنے کیے پر پچھتانے پر مجبور کردے گا۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران نے گزشتہ 45سال میں کوئی بھی جنگ شروع نہیں کی ہے اور آئندہ بھی کوئی جنگ شروع نہیں کرے گا لیکن اپنے جائز حق کا بھرپور دفاع کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل جوابی حملہ کرے گا تو اسے پہلے سے زیادہ قوت سے مزاحمت ملے گی اسے بڑے پیمانے پر اپنے بنیادی ڈھانچوں کی تباہی و بربادی دیکھنا پڑے گی اور اگر اس کے حامی ممالک ایران اسلامی کے خلاف کسی طرح کی جارحیت میں براہ راست مداخلت کریں گے تو انہیں علاقے کی سطح پر اپنے مفادات اور مراکز پر اسی وقت بھرپور حملے کا سامنا کرنا پڑے گا جو انہیں پچھتانے پر مجبور کر دے گا۔