کراچی میں بلدیاتی قیادت کی مشکلات

399

کراچی میں ایک طویل عرصے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1979 میں پہلی دفعہ ملک میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جماعت اسلامی نے کامیابی حاصل کی اور عبدالستار افغانی میئر کراچی منتخب ہوئے۔ اس وقت کے ایم سی کے ذریعے تمام بلدیاتی امور کی انجام دہی ہوتی تھی۔ سیوریج کا نظام اور پینے کے پانی کی عام گھروں تک سپلائی بھی کے ایم سی کے پاس تھی۔ اس وقت کراچی میں ایک ادارہ کے ڈی اے تھا اس کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس کراچی کی زمینوں کے معاملات کے علاوہ بلک واٹر سپلائی سسٹم کا نظام بھی اس ادارے کے پاس تھا یعنی کلری جھیل یا ڈملوٹی سے جو پانی کراچی کے شہریوں کے لیے آتا کے ڈی اے اس پانی کو کے ایم سی کے حوالے کرتا اب آبادیوں میں پانی کی لائنیں ڈالنا اور عام صارفین تک پانی پہنچانے کی ذمے داری کے ایم سی کے پاس تھی۔ پھر افغانی صاحب کے پہلے دور میں ہی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ کراچی جیسے بڑے پھیلتے ہوئے شہر میں پانی اور سیوریج کا ایک الگ سے ادارہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ کے ایم سی سے پانی اور سیوریج کا محکمہ اور کے ڈی اے سے بلک واٹر سپلائی کے محکمے کو ضم کرکے ایک ادارہ بنایا گیا جس کا نام کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ رکھا گیا اور اس کے چیئر مین عبدالستار افغانی بہ حیثیت میئر بنائے گئے اور ذاکر علی خان اس کے پہلے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے یعنی یہ ادارہ بھی کراچی کی منتخب قیادت کے پاس تھا۔ اس وقت یہ مطالبہ بھی زور شور سے تھا چونکہ اب کے ایم سی کا نام کراچی میونسپل کارپوریشن کے بجائے کراچی میٹروپولٹین کارپوریشن ہوگیا ہے اس لیے کراچی کے دیگر عوامی خدمت کے ادارے اس کی تحویل میں دیے جائیں جس میں کے ڈی اے، کراچی ٹرانسپورٹ اور کراچی پولیس کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ بلڈنگ کنٹرول کا محکمہ کے ڈی اے کے پاس تھا اسے الگ کرکے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نام سے باختیار ادارہ بنادیا گیا۔

افغانی صاحب کے پہلے دور میں کراچی میں جو ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا گیا اس کے نتیجے میں دوسری مرتبہ بھی جماعت اسلامی پہلے سے زیادہ کونسلروں کی تعداد لے کر کامیاب ہوئی اور عبد الستار افغانی دوبارہ میئر منتخب ہوگئے۔ کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں جماعت اسلامی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے جنرل ضیاء خوف زدہ ہورہے تھے پھر کراچی میں لسانیت کی سرپرستی کی گئی ایم کیو ایم کو کھلی چھوٹ مل گئی اور 1988 سے 2000 تک بلدیہ کراچی ایم کیو ایم کے پاس تھی بظاہر میئر فاروق ستار تو تین سال ہی رہے لیکن اس درمیان میں جو صوبائی حکومتیں رہیں ان میں کسی نہ کسی حوالے سے ایم کیو ایم شریک رہی۔ پھر 2000 سے 2005 تک جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ ناظم کراچی رہے اور دس ٹائون بھی جماعت کے پاس تھے۔ 2005 کے بعد ایم کیو ایم کے مصطفی کمال ناظم کراچی رہے اس کے کچھ عرصے کے بعد وسیم اختر ناظم کراچی بنے۔ اس تفصیل کا مطلب کوئی تقابلی جائزہ لینا مقصود نہیں ہے بلکہ جو نکتہ ہم اجاگر کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ جب جب جماعت اسلامی کے پاس بلدیہ کا نظام رہا جماعت کے میئر یا ناظم کی کوشش یہ رہی کہ جس طرح بعض بڑے ممالک کے شہروں میں ایک میٹرو پولٹن کارپوریشن کے جو اختیارات ہوتے ہیں، وہ حاصل کیے جائیں یہی وجہ ہے میئر عبدالستار افغانی کے زمانے میں بڑی شدت سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ کراچی کے دیگر اداروں کو میئر کراچی کے انڈر میں دیا جائے جس میں کراچی پولیس، کراچی ٹرانسپورٹ، کے ڈی اے اور دیگر ادارے۔ اور اسی وجہ سے موٹر وہیکل ٹیکس جو کسی زمانے میں بلدیہ کراچی وصول کرتی تھی وہ سندھ حکومت لینے لگی اسی موٹر وہیکل ٹیکس کی وصولیابی کا مطالبہ بار بار افغانی صاحب کی طرف سے ہوتا رہا پھر ایک دن ہائوس کے فیصلے کی روشنی میں میئر افغانی کی قیادت میں بلدیہ کے تمام کونسلروں نے موٹر وہیکل ٹیکس کے لیے دفعہ 144کی پابندی کرتے ہوئے چار چار کونسلروں نے فاصلہ رکھ کر بلدیہ ہیڈ آفس سے سندھ اسمبلی تک مارچ کیا اس وقت اسمبلی کا اجلاس ہورہا تھا جماعت کے ارکان صوبائی اسمبلی ڈاکٹر اطہر قریشی، نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ، اخلاق احمد، بابو غلام حسین بلوچ اور اسلم مجاہد نے کونسلروں کے جلوس کا استقبال کیا۔ کراچی کے حقوق کے لیے نکلنے والے اس کونسلروں کے جلوس کا غوث علی شاہ کی حکومت جو اس وقت ایم کیو ایم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر رہی تھی نے یہ جواب دیا کہ میئر افغانی سمیت سو سے زائد کونسلروں کو گرفتار کرلیا گیا اور بلدیہ کراچی توڑ دی گئی۔

جماعت اسلامی نے کراچی کے شہریوں کے حقوق کے لیے یہ قربانی دی ایم کیو ایم جس کے ایک میئر فاروق ستار اور دو ناظمین بالترتیب مصطفی کمال اور وسیم اختر رہے انہوں کراچی کے شہریوں کے لیے کیا حاصل کیا بلکہ ان کے دور میں کراچی اپنے جائز حقوق سے بھی محروم ہوگیا۔ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں پی پی پی اور ن لیگ کی حکومتیں باری باری آتی جاتی رہیں چونکہ طاقت کا توازن ایم کیو ایم کے پاس ہوتا اس لیے ان کی شرکت کے بغیر کوئی مرکزی یا صوبائی حکومت نہیں بن سکتی تھی ہمیں افسوس ہے کہ اتنی زبردست سیاسی طاقت رکھنے کے باوجود ایم کیو ایم بہاریوں کو واپس لاسکی اور نہ ہی کوٹا سسٹم ختم کراسکی۔ ان ادوار میں تو دوتہائی اکثریت والی حکومتیں بھی رہی ہیں ایم کیو چاہتی تو آئین میں ترمیم بھی آسانی سے ہو سکتی تھی جس کے ذریعے سے کوٹا سسٹم کا خاتمہ ہوسکتا تھا اور یہ اہم کام بھی ایم کیو ایم کراسکتی تھی کہ بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ حاصل ہوجاتا یہ مطالبہ ایم کیو ایم نے آج کی حکومت کے سامنے شمولیت کے لیے شرط کے طور پر رکھا جس کا ان سے وعدہ کرلیا گیا دیکھیے کب پورا ہوتا ہے اب اکتوبر میں جو چھبیسویں ترمیم آنے والی ہے ایم کیو ایم چاہے تو بلدیاتی اداروں کی آئینی تحفظ کی ترمیم کو بھی شامل کراسکتی ہے۔

2008 سے اب تک صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے اور ایم کیو ایم کسی نہ کسی شکل میں ان کے ساتھ حکومت میں شامل رہی۔ ان کے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی نے اقتدار کی قوت سے کراچی کے حقوق پر اس طرح ڈاکا مارا کے جو ادارے بلدیہ کراچی کے ماتحت ہونے چاہیے تھے انہیں سندھ حکومت کی ماتحتی میں لے لیا جیسے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا کر سارے اختیارات حکومت سندھ نے لے لیے اور اہم عہدوں پر کراچی کے لوگوں کو موقع دینے کے بجائے اپنی پارٹی کے لوگوں کو مسلط کیا اور یہ کام ہر ادارے میں کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ بلدیہ کراچی سے صفائی ستھرائی کا محکمہ لے کر ایک سندھ سالٹ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بنا کر اندرون سندھ سے اپنی پارٹی سے وابستہ لوگوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جس کا چیئرمین بلدیہ کراچی کا میئر بربنائے عہدہ ہوتا تھا سندھ حکومت نے اس ادارے کو کراچی واٹر ایند سیوریج کارپوریشن بنا کر حکومت سندھ کی تحویل میں لے لیا اسی طرح بلدیہ میں بی اینڈ آر (بلڈنگ اینڈ روڈ) کو ختم کرکے کلک کا ادارہ بنایا جو کراچی میں روڈ پل اور سڑکیں بنانے کا ٹھیکہ لیتا ہے۔ یہ تمام وہ ادارے ہیں جن کے کروڑوں روپے کے بجٹ ہوتے ہیں ان اداروں میں کرپشن بھی اپنے عروج پر ہے اور پی پی پی سے وابستہ لوگ ان اداروں کے کرتا دھرتا ہیں۔ بلدیہ کراچی تو کھوکھلی ہوچکی ہے۔ کراچی کے نوجوانوں کے ساتھ ایک اور ظلم یہ بھی ہوا کہ ان اداروں میں اندرون سندھ سے پی پی پی کے کارکنوں کو ملازمتیں دی گئیں ان سب اداروں کے بجٹ کو ملادیا جائے تو اربوں روپے سالانہ تک بات جاتی ہے۔ انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ کراچی کے شہریوں اور ان کے حقوق پر یہ ڈاکا ایم کیو ایم کے حکومت میں ہوتے ہوئے ہوا اور یہ تنظیم جس کو کراچی کے لوگوں جھولی بھر کر ووٹ اور نوٹ دیے کچھ نہ کرسکی۔

ہمیں افسوس ہے کہ اپنے ایک کارکن کی ہلاکت پر تین تین دن کے لیے شہر کو بند کرنے والی ایم کیو ایم نے کراچی کے ان اداروں کی ڈکیتی پر ایک دن کے لیے بھی احتجاج نہیں کیا انہیں تو اسی وقت احتجاجاً حکومت چھوڑ دینا چاہیے تھی جب کے بی سی اے کو ایس بی سی اے بنایا جارہا تھا تو اسی وقت تین دن کی ہڑتال کا اعلان کرنا چاہیے تھا لوگ بھی خوشی خوشی ساتھ دیتے اور حکومت سندھ کی آئندہ کسی ادارے کو اس طرح ہتھیانے کی ہمت نہ ہوتی۔ اب صورتحال یہ کہ بلدیہ خالی ہوچکی ہے ایک یوسی یا ٹائون ناظم کو روڈ بنانے کے لیے کلک کے افسران، گلیوں سے کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے لیے سندھ سالٹ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ذمہ داران، پانی اور سیوریج کے لیے کراچی واٹر اور سیوریج کارپوریشن کے انجینئرز اور کوئی بلڈنگ ناجائز تعمیر ہورہی ہو تو اسے رکوانے کے لیے ایس بی سی اے کے افسران کی منت ترلے کرنا پڑتا ہے۔ یعنی جس بیوروکریسی کو منتخب افراد کے ماتحتی میں ہونا ہے تھا اور یہ کہ وہ افسران منتخب لوگوں کے سامنے جوابدہ ہوتے اب یہ منتخب افراد بیوروکریسی کے رحم و کرم پر ہوکر رہ گئے ادھر دوسری طرف عام لوگ اپنے ہر مرض کی دوا ایک یوسی یا ٹائون ناظم کو سمجھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کے پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ نے ایم کیو ایم کو ساتھ رکھ کر یا انہیں بے وقوف بنا کران کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ کردیا۔ ہم آخر میں یہ مطالبہ کریں گے ان شہری اداروں کو جن کو حکومت سندھ نے اپنی تحویل میں لیا ہوا ہے ان کا پچھلے پندرہ برسوں کا فرانزک آڈٹ کرایا پھر لگ پتا جائے گا کہ یہ فیصلے کیوں کیے گئے۔