حسن نصر اللہ کی شہادت اور سیاست کا نیا رُخ

394

کیا حسن نصر اللہ کی شہادت حزب اللہ کی تحریک مزاحمت کو ختم کردے گی؟ اس اہم سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے حزب اللہ اور حسن نصر اللہ دونوں کی جدوجہد اور مقاصد کا جائزہ ضروری ہے۔ 22 ستمبر 2024ء حزب اللہ نے اعلان کیا کہ حسن نصر اللہ ہلاک ہوچکے ہیں۔ اسرائیل نے بدترین بمباری کے ذریعے حسن نصراللہ کو نشانہ بنایا، خاص طور سے اپنے وقت میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہورہا تھا اور اسرائیل کے وزیراعظم نیتن وہاں موجود تھے۔ گویا لبنان پر یہ بدترین بمباری اسرائیلی وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے سر پر سوار ہو کر اور اپنے سرپرست اعلیٰ اور اتحادی امریکا کی گود میں بیٹھ کر کی تھی۔ لبنان پر اسرائیل کی نظریں ہمیشہ سے ہیں اور امریکا اس کی پشت پر ہے۔ حسن نصر اللہ نے لبنان کو اسرائیلی جارحیت سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے حزب اللہ کو لبنان کی ایک بڑی عسکری اور سیاسی قوت بنایا۔ جس سے نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے میں اس کا اثر رسوخ قائم ہوا۔ لیکن حسن نصر اللہ کے نقادوں کا کہنا ہے کہ ان کی قیادت نے لبنان کو کئی طرح کے علاقائی تنازعات میں الجھایا جس کے نتیجے میں لبنان میں اقتصادی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔ خاص طور سے شام کی خانہ جنگی جو شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف جاری ہے اسے لوگ ’’سوری انقلاب‘‘ بھی کہتے ہیں، اس شامی خانہ جنگی یا سوری انقلاب میں حزب اللہ کی مداخلت اور 2005ء میں لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کے قتل میں حزب اللہ کے مبینہ کردار کی وجہ سے نصر اللہ پر شدید تنقید کی گئی۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات سچ ہے کہ حزب اللہ کے حسن نصر اللہ کے ساتھ لاکھ تنقید اور اختلاف اپنی جگہ مگر ان کی جدوجہد ان کے طریقہ قیادت اور ان کی قربانی سے اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ وہ مزاحمت کی ایک ایسی تحریک کی مسند ِ رہنمائی پر بیٹھے کہ جس پر بیٹھنے والے کو جان دینا ہوتی ہے۔ ان سے قبل 1992ء میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل عباس موسوی بھی اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے۔ حسن نصر اللہ ایسے مسند نشین رہے کہ انہوں نے کبھی قربانی سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسرائیل کے خلاف ان کی عسکری حکمت عملی اور ان کے خطابات ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ انہوں نے حزب اللہ کی قیادت کی مسند پر 32 سال گزارے لیکن یہ گزارنا محض گزارنا نہیں تھا بلکہ ان کی قیادت کے لبنان اس کے گردوپیش اور مشرق وسطیٰ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ان کے بہت سے ساتھی اور جوان بیٹا اسی مزاحمتی راستے کا ایندھن بنا۔ پھر ان کے ساتھ ان کی نو عمر بیٹی زینب شہادت کے مقام کو پہنچی کہ مزاحمت کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔

حزب اللہ کی ابتداء 1980ء کی دہائی میں ہوئی جب ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر ہو کر لبنان کے شیعہ علما نے اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ تنظیم کا اولین مقصد لبنان سے اسرائیل کے قبضے کا خاتمہ اور اسلامی اتحاد کی بنیاد پر ایک خود مختار ریاست کا قیام تھا۔ لبنان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ لبنان کے شیعہ اور سنی آبادی نے آپس میں اتحاد رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل کے ہمیشہ سے لبنان کے ساتھ تعلقات خراب ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عرب فلسطینی بھائیوں کی سرزمین پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے اور دوسرے یہ کہ اسرائیل لبنان کی سرزمین کو اپنا سمجھتا ہے یعنی گریٹر اسرائیل کا حصہ سمجھتا ہے۔ اسرائیل لبنان پر ماضی میں بھی حملے کرتا رہا ہے۔ جنوبی لبنان پر بیس سال تک قبضہ بھی کیے رکھا ہے۔ 1982ء میں اسرائیلی کمانڈوز نے ایریل شیرون کی قیادت میں بیروت میں واقع صابرہ اور شیتلا کے فلسطینی کیمپوں پر حملہ کرکے پانچ ہزار فلسطینیوں کو شہید کردیا تھا۔ اس قتل عام پر مغرب خاموش تماشائی بنا رہا تھا۔ کیونکہ لبنان کی فوج نہ ہونے کے برابر ہے۔ حزب اللہ نے آگے بڑھ کر اس خلا کو پُر اور امریکا اور اسرائیل کا لبنان کے جنوبی حصے پر قبضہ ناکام بنادیا تھا۔ یہ جنگ 2006ء تک جاری رہی تھی۔

تازہ سوال یہی ہے کہ کیا حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر کی اسرائیلی بمباری سے تباہی اور حسن نصراللہ کی شہادت تحریک مزاحمت کو ختم کردے گی؟ اس سوال کا جواب یقینا ہاں نہیں ہوسکتا۔ حسن نصر اللہ نے جو مثال قائم کی ہے وہ اتنی طاقتور اور پُر اثر ہے کہ صرف لبنان ایران اور شام کے لیے نہیں دنیا کے تمام مسلمان حکمرانوں کے لیے اس میں زندگی کا سامان پنہاں ہے۔ وہ ہر چیز سے کٹ کر اپنے مقصد سے جڑے رہے۔ جدت کے طریقے اپنائے صلاحیت کو کمال تک پہنچایا علم و عمل کو ہتھیار کے طور پر اپنایا اور مستقبل کی کامیابی کا نشان منزل کے طور اپنایا۔ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل سے اپنی کامیابی سمجھ کر کسی نشے کے خمار کو محسوس کرے۔ جیسا کہ نیتن یاہو نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ’’ابھی مشن مکمل نہیں ہوا… آنے والے دن مزید کچھ لے کر آئیں گے… اور خطے میں طاقت کا توازن بدلنے کے لیے حسن نصر اللہ کو ختم کرنا ایک شرط تھی‘‘۔ گویا اسرائیل کا اصل ہدف حسن نصر اللہ نہیں بلکہ پورے خطے میں طاقت کے توازن کو اسرائیل کے تابع رکھنا ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ کے تمام حکمرانوں کے لیے ایک نیا پیغام ہے۔ ایران ہی نہیں تمام مسلمان حکمرانوں کو اس پیغام کی روشنی میں اپنے مقدر کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ نہ وسائل کی کمی ہے نہ افرادی طاقت کی مسلم دنیا کا وسیع سمندر پشت پر ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلم حکمران آگے بڑھ کر دنیا کی سیاست کو ایک نیا رخ دیں۔