ایران اسرائیل تنازع: کیا حقیقت کیا افسانہ؟؟

520

ایران اور اسرائیل کے مابین اب جھڑپوں کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے تاہم کچھ لوگوں کی نظر میں یہ ایک محض خانہ پری ہے اور دونوں اصل میں ایک دوسرے کے ساتھ نورا کشتی کررہے ہیں۔ گزشتہ شب یکم اکتوبر کو ایک بار پھر ایران نے اسرائیل پر بلیسٹک میزائلوں سے حملہ کیا ہے تاہم ایک بڑی تعداد میں یہ میزائل اسرائیل پہنچنے سے قبل ہی تباہ ہوگئے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا اس بات کو زور دیکر بیان کررہا ہے کہ ان میزائلوں کو راستے میں ہی تباہ کردیا گیا اور اس آپریشن میں امریکا ناٹو اور برطانیہ نے بھی حصہ لیا۔ اس بات سے اس بات میں وزن پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ دونوں کے درمیان ایک فسکڈ میچ ہے؟

ایسے نظریات کے حامل افراد کا کہنا یہ بھی ہے کہ عراق میں صدام کی حکومت کو امریکا کی مدد سے گراکر ایک شیعہ حکومت ایران نے قائم کروائی، شام میں بشار الاسد کے خلاف سنی بغاوت کو کچلنے میں روس سے مدد لی گئی اور اب لبنان میں حزب اللہ کی جانب سے مزاحمت محض ایک دھوکہ ہے۔

تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ سیاست میں مفادات کا تحفظ اہم ترین ہوتا ہے اور اس کے لیے اقوام بعض اوقات کسی کی بھی مدد حاصل کرتیں ہیں۔ ماضی قریب میں افغانستان میں مجاہدین کی مدد کرنے والا ان کو اسلحہ ساز و سامان فراہم کرنے والا امریکا خود ان کو اپنا صف اول کا نہ صرف دشمن قرار دیتا رہا بلکہ دو دہائیوں تک ان سے برسر پیکار بھی رہا۔ یہی کچھ آج ایران و امریکا کے مابین ہے۔ ایران محض ایران نہیں ہے۔ شام، عراق اور لبنان بھی ایران ہی ہیں ادھر دوسری جانب حوثیوں کو بھی ایران کی حمایت حاصل ہے ایسی صورتحال میں ایران پر متواتر حملے اس کی خطے میں بالادستی کو براہ راست چیلنج کررہے ہیں خاص طور پر ایرانی سرزمین پر حماس کے سربراہ کا قتل، شیعہ و سنی تفریق، ایران کو ناقابل بھروسا ثابت کرنے کی ایک عمدہ کوشش تھی۔ اس سے قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں پراسرار موت کو جنرل ضیاء الحق کی طیارے میں موت سے تشبیہ دی جارہی ہے کہ دونوں کا قتل ایک ہی انداز میں ہوا اور اس بارے میں باز گشت ہے کہ دونوں کا قاتل بھی ایک ہی ہے۔

اب لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے یہ ایران ہے اوپر اور اس کی عسکری قوت پر براہ راست حملہ ہے لہٰذا اس صورتحال میں بھی اگر ایران خاموش رہتا تو اس کا مطلب خطے میں اس کی تمام تر برتری کا خاتمہ تھا۔

اس مجموعی صورتحال میں ایران کا اقدام بہت سوچ سمجھ کر اور متوازن ہے اور اس بات کا پیغام دینا ہے کہ اگر اسرائیل حملہ کرے گا تو وہ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اب اگر یہ نورا کشتی ہے تو یہ اسرائیل کی بہت بڑی ناکامی ہے کیونکہ ایک عرصے سے حزب اللہ اور حماس کے چھوٹے میزائل تو اسرائیل کی جانب آتے تھے اور وہ راستے میں ہی آئرن ڈوم کی نظر ہوجاتے تھے اگر ان دونوں کے سربراہان کو قتل کردیا گیا تو یہ سلسلہ ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن اس کے جواب میں کسی ملک کی جانب سے ان سے بھی بڑے میزائل اسرائیل بھیجنا خطے میں اسرائیل کی بالادستی کو مکمل ختم کرنے کے مترادف ہے گوکہ ان میزائلوں کی بڑی تعداد راستے میں ہی ختم کردی گئی لیکن ایران کا یہ حملہ اسرائیل کی خطے میں برتری کو کھلا چیلنج ہے۔ اس پوری صورتحال میں اب یہ بات مغربی میڈیا کررہا ہے کہ یکم اکتوبر 2024 کا یہ حملہ بیک وقت شام، عراق، ایران اور یمن سے کیا گیا یعنی ان ممالک سے بیک وقت میزائل اسرائیل کی جانب بھیجے گئے ہیں اگر اس بات میں صداقت ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ایران کا حملہ بہت طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا اور اس سے خطے میں موجود امریکی اڈوں کو بھی عدم تحفظ کا سامنا ہوگا۔

اس پورے منظر نامے میں اب یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ایران اب کھل کر جنگ پر آمادہ ہے اور اس کی پشت پر یقینا روس کی حمایت ہے اور روس و چین کی مدد سے خطے میں ایک نئی صف بندی ہوتی نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں اس کا یقینا سیاسی، معاشی اور معاشرتی اثر ہوگا لیکن اس پوری صورتحال میں پاکستان کا کردار اہم ترین ہوگیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس 15-16 اکتوبر 2024 کو اسلام آباد میں ہوگا جس میں روس و چین کے وزراء اعظم شرکت کریں گے یہ اجلاس اس لحاظ سے بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ خطے میں بدلتی صورتحال کے تناظر میں یہ ایک نئے بلاک کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے گوکہ اس تنظیم میں بھارت بھی شامل ہے لیکن اس اجلاس میں اور سائیڈ لائن میں ہونے والی ملاقاتوں و گفتگو کی اہمیت اب بہت زیادہ ہے۔

دنیا میں تیسری عالمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایک بلاک اسرائیل کی حمایت میں واضح پوزیشن لے چکا ہے جبکہ دوسری جانب سے ابھی تک کوئی واضح بلاک موجود نہیں اگر کوئی دوسرا بلاک ایران کے ساتھ اعلانیہ طور گیا تو شاید ہم اس جنگ کو مزید پھیلتا دیکھیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا تبدیل ہورہی اور یہ تبدیلی اتنی تیزی سے ہورہی ہے حالات و واقعات پر فوکس کرنا بھی ممکن نہیں ہوپاتا۔ بہر کیف 7 اکتوبر 2023 کے ایک سال کے اندر دنیا تبدیل ہوچکی ہے اور یہ تبدیلی حیرت انگیز ہے اسرائیل کا 74 سال کا جھوٹا بیانیہ زمیں بوس ہوگیا ہے فلسطینیوں نے اپنے خون سے دنیا کو ظالم و مظلوم کا فرق سمجھا دیا ہے۔ مغرب میں فلسطین کی حمایت ایک نئے دور کی خبر دے رہی ہے۔