ایران کا اسرائیل پر حملہ

118

غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کی اسرائیلی واردات کو ایک برس پورا ہونے کو آرہا ہے لیکن جنگ بندی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ مسلمان اور عرب ممالک تو اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، عملی مدد تو کیا زبانی شور مچانے کا کام بھی کرنے میں ناکام ہیں۔ دنیا کے باضمیر افراد غزہ کے بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور نہتے شہریوں کے اوپر اعلیٰ ترین اسلحہ جنگی ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک کمزور قوم کی مظلومیت پر آواز بلند کررہے ہیں لیکن عالمی سیاست کی مصلحتیں غالب ہیں۔ امریکا ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کی حمایت برقرار رکھے ہوئے ہے، اس لیے کہ مشرق وسطیٰ میں واقع سرزمین فلسطین پر نسل پرست ریاست اسرائیل کے قیام کے لیے پہلے صہیونی دہشت گرد تنظیم کا قبضہ کرایا گیا حالانکہ یہودیوں کا قتل عام یورپ میں ہوا تھا لیکن امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کی سیاسی مصلحت یہ تھی کہ پورے یورپ سے یہودیوں کو سرزمین فلسطین میں بسایا جائے، فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ جنگ عظیم اول سے چل رہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف مشرق وسطیٰ عرب دنیا کا نہیں ہے، نہ یہ مسئلہ 7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہوا ہے۔ البتہ ہوا یہ ہے کہ امریکا نے اسرائیل کے خلاف تمام مزاحمتی قوتوں کو جنگی طاقت، ڈپلومیسی کی چالاکی اور مسلم اشرافیہ کے نفاق کے ذریعے کچل دیا تھا، لیکن فلسطین میں حماس اور الجہاد کے چھوٹے سے گروہ نے اپنی مزاحمت جاری رکھی اور 7 اکتوبر کے بعد سے یہ مسئلہ ازسر نو زندہ کردیا۔ اس جنگ نے تمام چہروں کو بے نقاب کردیا ہے۔ اسرائیل، اس کی فوج اور خفیہ ایجنسی موساد کا ہدف یہ تھا کہ حماس اور اس کی مدد کرنے والے تمام عناصر کا خاتمہ کردے، جس میں اس کو کامیابی نہیں ہوسکی ہے، ایک طرف غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا اسی کے ساتھ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات جاری تھے، لیکن ہر قسم کے دبائو کے باوجود اسرائیل اپنی جنگ کو پھیلانا چاہتا تھا تا کہ وہ اپنے قریب ترین دائرے میں ہر قسم کی مزاحمت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔ اسرائیل نے ایران میں مہمان کے طور پر مقیم حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کو دہشت گرد کارروائی کے ذریعے شہید کردیا۔ اس کے بعد لبنان میں قائم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو شہید کیا۔ پیجر اور واکی ٹاکی بم کے ذریعے لبنان کے شہریوں کو نشانہ بنایا اور اس کی فوجیں جنوبی لبنان میں داخل ہوگئیں۔ اس سے ظاہر ہورہا تھا کہ اسرائیل اس جنگ کو مزید توسیع دینا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اسے کسی طاقت کی طرف سے رکاوٹ پیش نہیں آرہی ہے، اب تو صاف نظر آگیا ہے کہ امریکا بھی اسرائیل کا غلام ہے۔ لبنان پر زمینی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل پر بالآخر میزائل داغ دیے۔ اس سے قبل تک اسرائیل کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود ایران کی حکومت جنگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کررہی تھی۔ ایرانی حکومت نے اسرائیل کے فوجی اڈوں پر میزائل حملے کو اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی شہادت کا جواب قرار دیا ہے۔ اس جواب کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی حملوں کے بعد غزہ، لبنان اور عراق و ایران کے شہری جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں بھی فلسطینی شہریوں نے جشن منایا اور مسجد اقصیٰ میں جمع ہوگئے۔ حماس، حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں نے ایران کے حملے کو دلیرانہ اقدام قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا۔ فلسطین کی صورت حال میں تبدیلی اور 7 اکتوبر سے جاری جنگ میں غزہ کے مسلمانوں کے صبر و استقامت نے تمام عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے باوجود اسرائیل کی کمزوری عیاں کردی ہے۔ حماس اور اسرائیل کی جنگ ایسے مرحلے پر شروع ہوئی ہے جب عالمی سیاست میں بڑی تبدیلیاں واقع ہورہی ہے۔ اسرائیل کے قیام کے وقت دنیا دو بلاک میں تقسیم ہوگئی تھی اسرائیل کو امریکی بلاک اور سوویت بلاک دونوں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اب یہ صورت حال نہیں ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ بظاہر فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام اور ان کو کسی بھی طرف سے مدد نہ ملنے کے باوجود اسرائیل ناکام ہے۔ اس طرح جبری قبضے سے اسرائیل اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس طرح کا تشدد اور خون ریزی دو ریاستی حل کے امریکی فارمولے کو بھی ناقابل عمل بنادے گا۔ اور فلسطینی بالآخر اپنا وطن آزاد کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔