خودی کی زندگی کے مقاصد

179

اقبال ؍ فارسی کلام

طاقت پرواز بخشد خاک را
خضر باشد موسیٰ ادراک را

مطلب: آرزو خاک میں پرواز کی قوت پیدا کر دیتی ہے۔ یہ عقل و شعور کے موسیٰ کے لیے خضر (رہنما) بن جاتی ہے۔

دل ز سوز آرزو گیرد حیات
غیر حق میرد چو او گیرد حیات

مطلب: دل کی آرزو کی تپش ہی سے بقا میسر آتی ہے اور جب اسے حیات حاصل ہو جاتی ہے تو پھر ماسوا، یعنی اللہ کے سوا جو کچھ ہے مٹ جاتا ہے۔ گویا آرزو کی تخلیق سے محروم ہو جانا انسان کی موت ہے۔

چون ز تخلیق تمنا باز ماند
شہپرش بشکست و از پرواز ماند

مطلب: جب وہ (دل) آرزووَں کی تخلیق سے رک گیا تو سمجھ لو کہ اس کا بڑا پر ٹوٹ گیا اور وہ پرواز کے قابل نہ رہا (مردہ ہو گیا)۔ سوز آرزو کو دل کی زندگی کا باعث ٹھہرایا گیا ہے علامہ نے اردو میں ایک جگہ کیا خوب کہا ہے۔

دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

آرزو ہنگامہ آراے خودی
موج بیتابے ز دریائے خودی

مطلب: آرزو ہی خودی کے لیے ہنگامے آراستہ کرتی ہے۔ اسے خودی کے سمندر کی ایک بے قرار موج سمجھنا چاہیے۔