نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارتی پولیس نے سام سنگ الیکٹرانکس کے 600 کارکنوں اور یونین کے ارکان کو اس وقت حراست میں لے لیا جب وہ سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے تھے۔ چنائے میں گھریلو الیکٹرانکس آلات بنانے والے سام سنگ کے پلانٹ میں کارکنوں کی ہڑتال چوتھے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔ سام سنگ جنوبی کوریا کی ایک معروف الیکٹرانک کمپنی ہے۔ فیکٹری کے ایک ہزار سے زیادہ کارکن 9 ستمبر سے ہڑتال پر ہیں جس کی وجہ سے کام میں خلل پڑ رہا ہے۔ کارکن زیادہ تنخواہوں اور یونین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خبررساں اداروں کے مطابق بھارت میں سام سنگ کے سالانہ محصولات 12 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ ریاستی پولیس کے ایک سینئر عہدے دار چارلس سام راجادرائی نے بتایا کہ مظاہرے کی قیادت سام سنگ کے لیبر گروپ سی آئی ٹی یو سے منسلک کارکن اور ملازم کر رہے تھے۔ انہیں چنائے کے قریب اس وقت حراست میں لیا گیا جب مظاہرے کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں۔ گرفتار کیے گئے افراد کو 4شادی ہالوں میں بند کر دیا گیا۔ اس سے قبل 16 ستمبر کو بھی پولیس نے سام سنگ کے 104 ہڑتالی کارکنوں کو ایک روز تک حراست میں رکھا تھا۔دوسری جانب ان مظاہروں سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ان کوششوں پر اثر پڑ سکتا ہے جن کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھارت کے اندر اپنی مصنوعات بنانے کی ترغیب دینا ہے۔ سام سنگ کے کارکنوں کی اس ہڑتال کا شمار حالیہ برسوں میں بھارت میں ہونے والی سب سے بڑی ہڑتال میں کیا جا رہا ہے۔ سام سنگ نے انتباہ دیا ہے کہ مظاہرہ کرنے والے کارکن اپنی ملازمتوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ سام سنگ کا کہنا تھا کہ اس کے پلانٹ میں کام کرنے والے کل وقتی کارکنوں کی تنخواہیں علاقے میں قائم اسی نوعیت کی دوسری فیکٹریوں کے کارکنوں کی تنخواہوں سے دگنا ہیں۔