25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہوں گی، بلاول بھٹوزرداری

307
There will be difficulties in constitutional amendments

اسلام آباد: چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ یہی اشارہ کرتا ہے، 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہوں گی، ترامیم کو میں لیڈ کرتا تو پی ٹی آئی کو بھی ساتھ رکھتا، حکومت نے ہم سے پہلے ترمیم کا آئیڈیا عدلیہ سے شئیر کر دیا، شاید اسی لئے اس بار ترامیم کو خفیہ رکھا گیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نےمیڈیا گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ سپریم کورٹ نےپارلیمنٹ کےحق قانون سازی کوماناہے، ترامیم کو میں لیڈ کرتا تو پی ٹی آئی کو بھی ساتھ رکھتامولانا کی خواہش ہے پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لیا جائے ، حکومت نے ہم سے پہلے ترمیم کا آئیڈیا عدلیہ سے شئیر کر دیا، اس کے بعد مخصوص نشستیں ہی ہم سے چھن گئیں اگر 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہوں گی۔ شاید اسی لئے اس بار ترامیم کو خفیہ رکھا گیا ہے۔

صحافی نے سوال کیا کہ کیا بانی پی ٹی آئی کا ملٹری ٹرائل ہونا چاہیے؟ جس ہر بلاول بھٹو نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت لائیں فکر نہ کریں معافی کا اختیار اس وقت ہمارے پاس ہے، پی ٹی آئی کو عدلیہ میں خامیاں 2022 کے بعد نظر آئیں، 90 کی دہائی میں ہم وکیل کرتے تھے ن لیگ جج کرتی تھی، ایک شخص کیلئے ترمیم ہوتی تو تاحیات تعیناتی لکھ دیتے، آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ تھا۔ بانی پی ٹی آئی کی سیاست غیر ضروری ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ تھا، ہم صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالتیں چاہتے ہیں، کراچی بدامنی کیس کوبرسوں سے زیر التوا رکھاگیا، بدامنی کیس کوبنیادبناکرعدالت نےسندھ کابلدیاتی نظام بدلا، بدامنی کیا صرف کراچی میں ہے؟ کے پی بلوچستان میں نہیں؟سندھ کیلئے اس کیس میں عدالت نے آئین ہی الگ کر دیا کوئی جج آکر کہہ دیتا ہے50 کی دہائی والا کراچی چاہئے، 50 والے کراچی پر جائیں تو نہ بلڈنگ بنیں نہ کچھ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اختیارکاغلط استعمال کرے تومیں بول توسکتا ہوں، عدلیہ کے اختیار کے استعمال پر بولنے پر توہین لگ جاتی ہے، آئینی عدالت کےسربراہ فائز عیسی ہوں یاجسٹس منصور3 سال کیلئے ہوں گے، جسٹس منصور علی شاہ پر یقین ہے وہ اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرتے، ہم نے صدر سے سارے اختیارات لیکر وزیراعظم کو دیئے تو عدالت کے کیوں نہیں، ہم نے بھی تو قومی اسمبلی کے اوپر سینیٹ کو رکھا ہے۔

چئیرمین پی پی کا کہنا تھا کہ سیاستدان واپس سیاست کے دائرے میں آئیں، کون بنے گا وزیر اعظم کا کھیل ختم کریں، کون چیف بنے گا کون نہیں یہ کھیل بھی ختم ہونا چاہیئے۔ پولرائزیشن اتنی بڑ چکی کہ کہا جاتا ہے جو خان کے ساتھ ہے بس وہی ٹھیک ہے۔