گزشتہ کئی دنوں سے آئینی ترامیم کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں، جس سے عدالتی نظام بھی متاثر ہورہا ہے۔ عوام اس کشمکش میں ہیں کہ آخر ہونے کیا جارہا ہے؟ ایک سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کیا حکومت عدالتی نظام کو ہائی جیک کر کے اپنی مرضی سے فیصلے چاہتی ہے، تو دوسرا سوال یہ اُٹھایا جارہا ہے کہ آخر کب تک ہم ملکی مفادات میں ملازمتوں میں توسیع دینے کے اس سلسلے کو اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے استعمال کرتے رہیں گے۔ آخر ان آئینی ترامیم کے مسودے میں ایسا کیا ہے جس سے اراکان پارلیمنٹ بھی لا علم ہیں دونوں ایوانوں کے ۴۰۰ سے زائد اراکین کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ آخر ہوکیا رہا ہے جبکہ حکمران اتحاد کی اعلیٰ قیادت نے متنازع آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے درکار تعداد کو حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ آخر ایسا کیوں کیا جارہا ہے! اگر دیکھا جائے تو ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کو کرپشن کے تمام تر مقدمات سے کلین چٹ دی جاچکی ہے۔ سیاست کا میدان اب ن لیگ کے لیے مکمل ہموار بنا دیا گیا ہے خان صاحب جو ن لیگ کے لیے ایک بڑے سیاسی حریف ہوا کرتے تھے ان کی جماعت کو دیوار میں چن دیا گیا ہے، اسٹیبلشمنٹ بھی موجودہ حکومت کے ساتھ ایک پیج پر دکھائی دے رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک معاشی بحران کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے گیس، بجلی مہنگی کر دی گئی ہے اشیاء خورو نوش کی قیمتوں کو قابو کرنے میں ن لیگ کی حکومت ناکام ہوچکی ہے مہنگائی بیروزگاری کا جن بے قابو ہوچکا ہے متنازع آئینی ترامیم کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
یقینا ملک کا آئین ارباب اختیار کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ آئین میں غیر جانبدار شفاف ترامیم حکومت اور اپوزیشن مل کر کر سکتے ہیں مگر ایک ایسی ترامیم جو متنازع ہوجائے جس سے نیت میں شکوک پیدا ہوجائیں ملک اور جمہوری نظام کے لیے نقصان کا باعث ہوسکتی ہیں۔ ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کیوں ضروری سمجھی جارہی ہے؟قوم پہلے ہی موجودہ عدالتی نظام سے مطمئن نہیں ہے، برسوں گزر جانے کے باوجود اس وقت عدالت عظمیٰ میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے مقدمات موجود ہیں جن کا اب کوئی والی وارث نہیں، کوئی مر گیا ہے تو کوئی عمر کے اس حصے میں ہے کہ وہ عدالتوں کے چکر لگانے کی سکت ہی نہیں رکھتا صرف اتنا ہی نہیں چند ماہ پہلے بھٹو صاحب کے نعرے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کہ نعرے کو عملی جامہ پہنایا گیا یعنی بھٹو صاحب کی پھانسی کی سزا کو غلط قرار دیا گیا اب ہم ایسے عدالتی نظام کو توسیع دینے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔
ہمیں متنازع آئینی ترامیم لانے کے بجائے غیر جانبدار شفاف موثر آئینی اصلاحات صرف عدالتی نظام میں نہیں بلکہ تمام تر اداروں میں لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک میں غیر جانبدار فوری انصاف کا قیام ممکن بنایا جاسکے اس وقت جو متنازع آئینی ترامیم لانے کی کوشش کی جاری ہے اس کا مقصد صرف عدالتی نظام کو حکومت کے ماتحت کیے جانے کی ایک سازش ہے جس کا نقصان یقینا مستقبل میں ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کو اُٹھانا پڑ سکتا ہے اس وقت جہاں حکومت اور اپوزیشن اس متنازع آئینی ترامیم پر اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکا رہی ہیں وہاں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی مشکوک بنتا جارہا ہے۔ دوسری جانب موجودہ ججوں کی اس متنازع آئینی ترامیم پر خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے۔
متنازع ترامیم کو منظور کروانے کی ناکام کوشش کے باوجود حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنا منصوبہ ترک نہیں کیا ہے ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریٹائر ہونے سے قابل حکومتی اتحاد اس ترامیم کو منظور کرانے کی ایک کوشش اور ضرور کرے گی جو موجودہ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ اور وہ تمام ججوں کو جو عدالت کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اُن کا کڑا امتحان ہوگا کہ وہ ان آئینی ترامیم کو روکنے کے لیے اپنا کیا کردار ادا کرتے ہیں ساتھ ہی چیف جسٹس فائز عیسیٰ جن کی مدت ملازمت ختم ہورہی ہے کیا وہ اپنی ملازمت میں توسیع لیتے ہیں یا پھر عدالتی نظام کی آزادی کی خاطر ریٹائرمنٹ لیتے ہیں۔
اس وقت ہمیں تمام تر قومی ریاستی اداروں میں آئین کے تحت غیر جانبدار شفاف اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے خاص کر انتخابی عمل میں شفاف اصلاحات لائی جائیں تاکہ دھاندلی کا شور دفن ہوسکے ساتھ ہی عدالتی نظام کو بھی شفاف غیر جانبدار اصلاحات کی یقینا ضرورت ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ اصلاحات کے نام پر مدت ملازمت میں توسیع دیتے ہوئے حکومت عدالتی نظام کو ہائی جیک کرنے کی سا زش کریں۔