جہاد کی لذت آشنائی

309

غزہ میں مسلم خون کی آرزانی ہے، خونخوار اسرائیل درندگی کی ہر حد پھلاند رہا ہے۔ وہ اللہ کے نام پر مرمٹ جانے والوں کے ایمان سے برسرپیکار ہے، پورا عالم کفر اس درندگی پر اُس کی پشت پر ہے، مال و اسباب ہتھیاروں کی بہتات اسرائیل کو حاصل ہے، معرکہ بدر کا سا سماں ہے۔ غزہ کے مجاہدین بے سروسامانی کے عالم میں مورچوں پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنی قوت صبر و ایمان کے ساتھ ربّ کے حضور سجدہ ریز ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جان ربّ کے حضور لٹا دی تو بھی حق ادا نہ ہوا۔ ایک طرف یہ مجاہدین برسرپیکار ہیں تو دوسری طرف مسلم کہلانے والے عیش و طرب میں ڈوبے اس طرح لاتعلق ہیں جیسے وہ جانتے ہی نہیں۔ ایک طرف سرفروشی ہے تو دوسری طرف مسلم حکمرانوں کی عیش پرستی اور کفر کی قوتوں کی چاپلوسی ہے۔ ہر اک اپنے نشے سے سرشار ہے۔ جُبہ قبہ والے جہاد کی لذت سے نہ آشنا اب ہاتھ اُٹھا کر اُن مجاہدین کے حق جو برسر پیکار ہیں شہید ہوگئے ہیں دعا کو وقت کا زیاں سمجھنے لگے ہیں، اب لبادے، رسم و رواج ہی اسلام ہے۔ حلوہ کھانا ہی سنت بچی ہے، یہ جہاد کی لذت کیا جانیں کہ شہید جب روز محشر کہیں گے کہ ربّ ہمیں دُنیا میں پھر بھیج کہ ہم تیری راہ میں جہاد کرکے شہادت کی لذت پائیں۔ خوف کھانے والے اور جان لڑانے والے مجنوں اس جہاد سے الگ الگ کردیے ہیں۔ تاریخ نئی رقم ہورہی ہے، نئی صف بندی ہے۔ مجاہد، کفار، منافق نمایاں ہورہے ہیں تو مجھے وہ تاریخی خط یاد آرہا ہے جو اپنے دور کے بڑے متقی پرہیز گار عبداللہ بن مبارکؒ نے مشہور تابعی بزرگ فضل بن عیاضؒ کو محاذ جنگ سے لکھ کر بھیجا۔ جس کے جملے آج بھی تروتازہ ہیں اور موجودہ صورتِ حال پر خوب ہیں۔ آپ لکھتے ہیں: ترجمہ

’’اے حرمین شریفین کے عابد اگر ہم مجاہدین کو آپ دیکھ لیں تو آپ جان لیں گے کہ آپ تو عبادت کے ساتھ کھیل رہے ہیں اگر آپ کے آنسو آپ کے رخساروں کو تر کرتے ہیں تو ہماری گردنیں ہمارے خون سے رنگین ہوتی ہیں۔ عنبرو زغفران کی خوشبو آپ کو مبارک ہو جبکہ ہماری خوشبو گھوڑے کے کھروں سے اُڑنے والی مٹی اور اللہ کے راستے کا پاک غبار ہے‘‘۔

اسرائیل جو امریکا اور اُس کے حواریوں کے اسلحہ، مال و اسباب مادی وسائل پر برسرپیکار ہے تو مظفر وارثی کا یہ شعر سامنے آگیا۔

وہ جیت کے بھی ہار گیا مظفر
مانگی ہوئی تلوار سے جو شخص لڑا ہے

حق غالب آئے گا یہ اٹل فیصلہ ہے۔ منافقوں کو شرمسار ہونا پڑے گا ان شاء اللہ

اسرائیل نے غداروں کی مصدقہ اطلاع پر بیروت پر دراندازی کی اور حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹر کو اس وقت میزائلوں کا نشانہ بنایا جب عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ بھی ہائی کمان ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے۔ اس حملے سے اِک سکتہ کی سی کیفیت ایران میں طاری ہوگئی۔ اُمت مسلمہ کی دُعائیں اور حزب اللہ کے ساتھیوں کی ربّ سے التجائیں سب اکارت گئیں اور حزب اللہ کے سربراہ سمیت تمام اہم عسکری ساتھیوں کا صفایا ہوگیا۔ یہ سانحہ جو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد غزہ کی معرکہ آرائی کے بعد دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر امت مسلمہ تلملا کر رہ گئی تو ایران کے مناسب وقت پر جواب کو اُٹھا رکھا تو اب پھر حسن نصر اللہ کا صدمہ اُٹھانا پڑ گیا جن کی قیادت میں ایران مسلکی انقلاب عرب دنیا میں عسکری تہلکہ مچائے ہوئے تھا اور ایک مرحلہ وہ آیا کہ اسرائیل کو حزب اللہ کی شرائط پر مذاکرات کرنے پڑے اور یوں نصر اللہ اسرائیل کی آنکھ کا کانٹا بنے تو پھر اب کیا ہوا۔ اسرائیل نے کیسے نقب لگائی اور اس کانٹے کو اکھاڑ پھینکا۔ اسرائیلی صحافی موشی نے دعویٰ کیا کہ ایران نے امریکا سے بڑا معاہدہ کیا اور حزب اللہ کو سونے کی پلیٹ پر رکھ کر اسرائیل کے حوالے کردیا اور یوں پھر 10 دن کے اندر اسرائیل نے تمام قائدین کا صفایا کردیا۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ ایران نے مملکت کی سلامتی خاطر حزب اللہ کی بھینٹ دے دی۔

سعودی عرب میں شیعہ مکتب فکر کے معتدل رہنما نے نصر اللہ سانحہ سے چند روز قبل ٹوئٹ کیا تھا کہ نصراللہ وصیت لکھ دو، تمہارا سودا خریداروں نے آگے کردیا ہے۔ یاد رہے کہ نصراللہ امل، ملیشیا سے حزب اللہ میں آئے تھے، جنرل محمد ضیا الحق نے ایران کی سلامتی کی خاطر بقول میجر عامر کے ساتھیوں سمیت شہادت قبول کی تو کیا ایران نے بھی معرکہ غزہ کی لپیٹ میں آنے سے بچنے کے لیے مسلکی انقلاب برآمد کرنے والی تنظیم حزب اللہ کے اعلیٰ دماغوں کا داغ قبول کرلیا۔ یہ تاریخ کا اہم سوال ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور حسن نصراللہ کی شہادت کے لیے انتہائی درست مخبری اور غداری کا مرتکب کون ہوا۔ سعودی عرب میں شیعہ مکتب فکر کے جید عالم جو 71 کتابوں کے مصنف ہیں جن کو سعودی عرب کے حکمران 2021ء میں سعودی عرب کی شہرت دی انہوں نے کس بشارت و خواب پر حسن نصر اللہ کو وصیت لکھنے کی مصدقہ بات کی۔ اور اسرائیلی صحافی موشی کا انکشاف کہاں تک حقیقت ہے کہ ایران نے کہا چڑھ بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے کا کڑوا گھونٹ کس قیمت پر پیا۔ اسرائیل کے 2006ء میں دانت کھٹے کرنے والے حسن نصراللہ کیا واقعی ایران کے لیے کھٹے انگور ہوگئے کہ لبنان میں پیجر دھماکوں کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اسرائیل سے ایک بڑی جنگ کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا تھا۔ سو ایران پر بھاری پڑ رہا تھا جو اب تک جنگ سے گریزاں اور پہلو بدل رہا ہے۔ اس حملے کی منظوری اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دی جب وہ نیویارک میں تھے اور حملہ اس وقت ہوا جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کا اختتام کیا۔ معلومات پنٹا گون کے فراہم کیں اور چالیس فٹ گہرائی میں قائم کمانڈر ہیڈ کوارٹر آٹھ اسرائیلی طیاروں سے فائر کردہ میزائل سے زمین بوس ہوگیا۔ نیو ورلڈ آرڈر جنم لے رہا ہے۔