اسلام آباد(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ لگتا ہے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کو غیر موثر بنانے کے لیے تھا،جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہی ہوگا، ایک طرف رائے دی گئی منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے۔عدالت عظمیٰ کے 5رکنی بینچ نے منحرف ارکان اسمبلی سے متعلق آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل سب کو معلوم ہے کہ عدالت عظمیٰ میں کیا چل رہا ہے، کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہو رہا، اب لارجر بینچ مکمل ہے کارروائی شروع کی جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طرف صدر مملکت ریفرنس بھیج رہے ہیں دوسری طرف حکومتی جماعت آرٹیکل 184کے تحت ریفرنس دائر کرتی ہے۔صدر سپریم کورٹ بار نے پوچھا کہ ریفرنس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا، عدالت عظمیٰ نے ریفرنس پر رائے دے کر آئین میں نئے
الفاظ شامل کیے۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ پریکٹس پروسیجر کمیٹی کا دوبار اجلاس ہونے کے باوجود جسٹس منصورعلی شاہ کی عدم شرکت کے باعث بنچ میں تبدیلی کردی گئی جسٹس نعیم اختر افغان کو آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل کر لیاگیا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس منگل کو صبح 9 بجے عدالت عظمیٰ میں ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان جسٹس منصور علی شاہ کا انتظار کرتے رہے تاہم جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے اور نہ کوئی پیغام بھیجا۔ججز کمیٹی نے 63 اے کی تشریح کے معاملے پر نیا بنچ تشکیل دے دیا ہے جس میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان کو 5 رکنی بنچ میں شامل کیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا تاہم جسٹس منصور کے کمیٹی اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر جسٹس نعیم اختر کو بنچ میں شامل کر لیا گیا۔جسٹس نعیم اختر افغان کی شمولیت سے سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ مکمل ہوگیا، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم بھی بنچ میں شامل ہیں، لارجر بنچ ساڑھے 11 بجے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کرے گا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بنچ نے سماعت کی جبکہ لارجر بنچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے موجودہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے بنائے بنچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔