پنجاب حکومت نے دفعہ 144 کے نفاذ میں 90 دن کی توسیع کی تجویز پیش کردی

121

لاہور: پنجاب حکومت نے صوبائی اسمبلی میں ایک ترمیمی بل پیش کیا ہے جس کے تحت دفعہ 144 کو کم از کم 3 ماہ کے لیے نافذ کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ قانون نوآبادیاتی دور سے متعلق ہے اور عوامی اجتماعات پر پابندی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔

یہ بل 5 ستمبر کو صوبائی اسمبلی میں وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمن نے پیش کیا تھا جس کا مقصد کوڈ آف کرمنل پروسیجر (پنجاب ترمیمی) ایکٹ 2024 کے تحت فوجداری ضابطہ 1898 میں ترمیم کرنا ہے ۔

موجودہ قانون کے تحت صوبائی حکومت کو دفعہ 144 نافذ کرنے کی اجازت زیادہ سے زیادہ 2 دن تک ہے، اگر انسانی جان، صحت یا حفاظت کو کوئی خطرہ نہ ہو تو 7 دن کی توسیع کی جا سکتی ہے ۔

تاہم، مجوزہ ترمیم کے تحت ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کو 30 دن تک عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے کا اختیار دیا جائے گا، جبکہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری کو 90 دن تک پابندی لگانے کی اجازت ہوگی۔

موجودہ قانون کے تحت میئر کو دفعہ 144 نافذ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جو پولیس کی تحریری سفارش کے ذریعے کام کرتا ہے، لیکن ترامیم کے تحت یہ اختیار ڈپٹی کمشنر یا ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری کو منتقل کرنے کی تجویز ہے، جبکہ پولیس کی سفارش کی ضرورت ختم کی جا رہی ہے۔

بل پیش کرنے والے مجتبیٰ شجاع الرحمن نے بتایا کہ یہ ترامیم صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد پیش کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا دفعہ 144 کے تحت پابندی کی مدت میں توسیع ضروری ہے کیونکہ کسی ضلع میں ایسی پابندی عائد کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کی پیشگی منظوری لینا مناسب نہیں ہے۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ  یہ ترامیم سنگین اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے متعارف کرائی گئی ہیں، جو عوامی امن و امان کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ ان کا مقصد عوامی مفاد میں احتیاطی تدابیر فراہم کرنا اور امن عامہ کی شدید خلاف ورزیوں کو روکنا ہے۔

یاد رہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے قانونی چارہ جوئی کی صورت میں 1 سے 6 ماہ قید کی سزا مقرر کی گئی ہے اور اس بل و ترمیم کے لیے پنجاب اسمبلی کی کمیٹی کو بھیجا گیا ہے ۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی 2022 کی رپورٹ، جس کا عنوان “Freedom of Peaceful Assembly in Pakistan” ہے، نے دفعہ 144 کو ایک “غیر چیک شدہ اتھارٹی” کے طور پر پیش کیا، جو صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو کسی بھی بہانے سے طویل مدت تک اجتماعات پر پابندی لگانے کا اہل بناتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طاقت کا “بڑے پیمانے پر غلط استعمال” کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے سینئر کونسل، سروپ اعجاز نے اس متنازعہ قانون میں مجوزہ تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا، “یہ ترمیم پہلے سے ہی خراب قانون کو مزید خراب کرے گی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی CRPC میں دفعہ 144 کو منسوخ کرنے کے مطالبات کر رہی ہیں، کیونکہ یہ پہلے ہی بہت زیادہ وسیع ہے، اور اب یہ ترمیم انتظامیہ کو 30 یا 90 دن تک پابندیاں عائد کرنے کی اجازت دے گی۔”

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 16 شہریوں کو پرامن اجتماع کا حق دیتا ہے، مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتیں ماضی میں اس قانون کا استعمال کسانوں، طلباء، اور اساتذہ کے احتجاج کو روکنے کے لیے “سکیورٹی” اور “امن و امان” برقرار رکھنے کی آڑ میں کرتی رہی ہیں۔ حال ہی میں، پنجاب حکومت نے بھی اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی ریلیوں پر پابندی لگانے کے لیے دفعہ 144 کا استعمال کیا ہے۔

سروپ اعجاز نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے دفعہ 144 کا نفاذ میئر یا منتخب لوکل گورنمنٹ سے ڈپٹی کمشنر یا ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری کو منتقل کرنے کی تجویز اختیارات کو مزید “مرکزی” بنانے کی کوشش ہے۔

وفاقی حکومت نے بھی عجلت میں “Peaceful Assembly اور پبلک آرڈر ایکٹ 2024” منظور کیا ہے، جو دارالحکومت میں انتظامیہ کو عوامی اجتماعات کو “منظم کرنے” اور پابندی لگانے کی اجازت دیتا ہے، اور “غیر قانونی اجتماع” کی سزاؤں کو 6 ماہ سے بڑھا کر 3 سال قید کر دیا ہے۔