نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارتی سپریم کورٹ نے بلڈوزر ایکشن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے آسام کی ریاستی حکومت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ نجی املاک کے خلاف انہدامی کارروائی پر یکم اکتوبر تک حکم امتناع دینے کے باوجود آسام حکومت نے بلڈوزر سے مکانوں کو مسمار کیا گیا۔جسٹس بی آر گوئی اور کے وی وشوناتھن کے بینچ نے آسام کے کامروپ ضلع میں 47 مکانات کی مسماری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران ریاستی حکومت کو 3ہفتے میں جواب دینے کا حکم دیا ۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے بینچ نے 17 ستمبر کو انہدامی کارروائیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے بلڈوزر کو انتقامی حربہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ کسی کا جرم اگر ثابت بھی ہو جائے تو بھی اس کے مکان کو منہدم نہیں کیا جا سکتا۔ مقامی میڈیا کے مطابق آسام انتظامیہ نے 24 ستمبر کو کامروپ ضلع کے کچوٹولی، کچوٹولی پاتھر اور سوناپور میں 250 مکانات مسمار کیے تھے۔ اس سے قبل 9ستمبر کو موری گاؤں ضلع میں 240 مکانات منہدم کیے گئے۔ متاثرین کی اکثریت بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی ہے۔ کامروپ ضلع کے 47 مسلمانوں نے مسماری کے خلاف درخواست دائر کی،جس میں گوہاٹی ہائی کورٹ کے حکم کا بھی حوالہ دیا کہ ریاستی ایڈووکیٹ جنرل نے 20 ستمبر کو ہائی کورٹ کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ جب تک ان کی پٹیشن پر فیصلہ نہیں ہو جاتاان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ انہدام سے قبل ان کو مکانات خالی کرنے کے لیے ایک ماہ کا نوٹس تک جاری نہیں کیا گیا۔