احیائے اسلام کی تحریک۔ ایک تعارف (آخری قسط)

361

پابندی ختم ہوتے ہی جماعت اسلامی اس طرح میدان میں آگئی جس طرح بٹن دباتے ہی بجلی کا بلب روشن ہوجائے۔ جماعت اسلامی کے دفاتر آنِ واحد میں کھل گئے اور ان میں معمول کی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ جنرل ایوب خان نے جماعت اسلامی پر عجلت میں پابندی لگانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ وہ اسی سال یعنی 1964ء میں صدارتی انتخاب کا ڈراما رچا کر خود کو آئینی صدر بنانے کے چکر میں تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ جماعت اسلامی اس کے مخالف امیدوار کی پشت پر کھڑی ہو کر اس کے کھیل کو بکھیر دے۔ اپوزیشن جماعتوں نے جنرل ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا صدارتی امیدوار بنایا تھا اور جماعت اسلامی دستیاب حالات میں ان کی حمایت کا اعلان کرچکی تھی۔ واضح رہے کہ جنرل ایوب خان کی انتخابی مہم ان کے لائق سیاسی فرزند (بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے) ذوالفقار علی بھٹو چلا رہے تھے۔ تاہم ایوب خان محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل آنے سے بہت گھبرایا ہوا تھا۔ محترم خرم مراد نے اپنی خود نوشت ’’لمحات‘‘ میں ایوب خان کی گھبراہٹ کا ایک واقعہ لکھا ہے اور بھٹو کا نام لیے بغیر بتایا ہے کہ اس نے نہایت غصے میں اپنے وزیر سے کہا ’’یہ تیری ماں کہاں سے میرے مقابلے میں آگئی ہے‘‘ کیونکہ اسے یہ بتایا ہی نہیں گیا تھا کہ اس کے مقابلے میں یہ ’’خطرہ‘‘ بھی موجود ہے۔ بہرکیف بھٹو نے اپنے ڈیڈی کو راضی کرنے کے لیے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف انتہائی غلیظ اور بیہودہ انتخابی مہم چلائی جس کا عوام میں نہایت منفی اثر ہوا جبکہ جماعت اسلامی کو محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت سے باز رکھنے کا ایوبی منصوبہ بھی بری طرح فلاپ ہوگیا اور مولانا مودودی رہا ہوتے ہی اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی دوروں میں شریک ہوگئے۔ وہ اپنے خطاب میں ایوب خان کے خلاف سنگین جرائم کی تفصیل پیش کرنے لگے۔ اگر صدارتی انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا تو ایوب خان کا عبرتناک شکست سے دوچار ہونا یقینی تھا لیکن اس بنیادی جمہوریت کی آڑ میں اپنا حلقہ انتخاب اتنا محدود رکھا تھا کہ اس میں نقب لگانے کی گنجائش نہ تھی۔ اندازہ کیجیے کہ عام انتخابات میں ایک رکن اسمبلی کا حلقہ انتخاب دو ڈھائی لاکھ ووٹوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن ایوبی نظام کے صدارتی انتخاب میں ملک دونوں حصوں سے صرف اسّی ہزار کونسلرز کو ملک کا صدر منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جنہیں حکومت کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جاسکتا تھا۔ چنانچہ جنرل ایوب خان ہر قسم کے حربے استعمال کرکے صدارتی انتخاب تو جیت گیا لیکن اس کی آمریت اپنی جڑوں سے ہل گئی اور اسے چین سے حکومت کرنا نصیب نہ ہوسکا۔ یہ صدارتی انتخاب درحقیقت اس کے زوال کا نقطہ آغاز تھا۔ اگلے سال پاکستان کو بھارت کے ساتھ جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس میں پوری قوم نے فوج کا ساتھ دیا اور مولانا مودودی سمیت تمام اپوزیشن لیڈروں نے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر جنرل ایوب کی حمایت کی اور اسے اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد سابق سوویت یونین نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے دونوں ملکوں کے لیڈروں کو تاشقند بلایا تو جنرل ایوب کو مولانا مودودی نے مشورہ دیا کہ بے شک مذاکرات ناکام ہوجائیں لیکن وہ مسئلہ کشمیر پر کوئی سمجھوتا نہ کریں اور اپنے اصولی موقف پر قائم رہیں لیکن وہ سوویت یونین کے دبائو میں آکر مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ گیا اور معاہدہ تاشقند اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ثابت ہوا اور اسے تین چار سال بعد نہایت رسوائی کے ساتھ اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔

جنرل ایوب خان کے پورے دور اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ اسے امریکا کی طرف سے جماعت اسلامی کو ختم کرنے کا مشن سونپا گیا تھا۔ جماعت اسلامی اُس وقت احیائے اسلام کی سب سے توانا تحریک تھی جس کے اثرات پوری دنیا خاص طور پر مسلمان ملکوں میں محسوس کیے جارہے تھے۔ مولانا مودودی نے اسلام کو بطور مکمل نظام زندگی متعارف کراکے ذہنوں میں ایک انقلاب کردیا تھا۔ اب اسلام محض چند عبادات یا رسم و رواج کا مجموعہ نہ تھا بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبے پر حاوی تھا اور حکومت اس کی اطاعت گزار تھی۔ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا تھا اس میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ حکمران اسلام کی تعلیمات سے ہٹ کر کوئی قدم اُٹھائیں اور اسے حکمرانی کا نام دے کر اس پر اصرار کریں۔ مولانا مودودی نے نہایت ٹھوس دلائل کے ساتھ اس کی گنجائش ہی نہ چھوڑی تھی۔ انہوں نے پاکستان بنتے ہی پوری قوت کے ساتھ نفاذ اسلام کا مطالبہ اٹھایا تھا اور انگریز کے جانشین حکمرانوں سے ٹکرا گئے تھے۔ یہی بات نئی استعماری طاقت امریکا کو کھٹک رہی تھی جس نے برطانیہ سے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو نہ اسلامی بننے دے گا اور نہ اسے جمہوری رہنے دے گا، اپنا یہ ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے اس نے جنرل ایوب خان کو قوم پر مسلط کیا تھا۔ اس جرنیل نے امریکی ایجنٹ کے طور پر پاکستان میں امریکا کے دونوں اہداف کو پورا کرنے کے لیے بڑی سرگرمی سے کام کیا۔ وہ پاکستان کا نام تو نہ بدل سکا لیکن اپنے غیر اسلامی اقدامات کے ذریعے پاکستان کا حلیہ بدلنے میں جزوی طور پر کامیاب رہا، یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر جنرل ایوب پاکستان کو سیکولر ملک نہ بنا سکا تو اس نے اسے مکمل طور پر اسلامی بھی نہیں رہنے دیا، جبکہ اس نے 1956ء کا اسلامی و جمہوری آئین منسوخ کرکے اور عوام سے اپنے نمائندے براہِ راست منتخب کرنے کا حق چھین کر پاکستان کے جمہوری ملک ہونے کا حق بھی چھین لیا۔ لیکن سب سے بڑی ناکامی اسے تحریک احیائے اسلام کو لٹانے کے حوالے سے ہوئی۔ اس نے جماعت اسلامی کو ملکی معاملات سے لاتعلق کرنے، دہشت گردی کے ذریعے اسے خوفزدہ کرنے اور آخری چارہ گاہ کے طور پر اسے خلاف قانون قرار دے کر ختم کرنے کی پوری کوشش کی لیکن امریکی ایجنٹ کو بری طرح ناکامی ہوئی۔

جنرل ایوب خان کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئین خواہ وہ فوجی تھیں یا سول، امریکی ایجنڈا ان سب کے ہاتھ میں تھا لیکن عوام کی مزاحمت کے خوف سے وہ اس ایجنڈے کو زیادہ آگے نہ بڑھا سکیں۔ اندازہ کیجیے ٹرانس جینڈر ایکٹ پی ڈی ایم (1) حکومت کے دور میں منظور ہوا حالانکہ اس کا چرچا بہت پہلے سے ہورہا تھا، ملکی معیشت کو مکمل طور پر آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دینے کا فیصلہ موجودہ حکومت کے دور میں ہوا حالانکہ اس پر کام بہت عرصے سے جاری تھا۔ امریکا پاکستان کے حوالے سے اپنے ایجنڈے پر نہایت محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا ہے، وہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک تو بنانا چاہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے بھی محروم کرنا چاہتا ہے، جس کی طرف وزیر خارجہ اسحق ڈار نے اشارہ بھی کردیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آئی ایم ایف نے سات ارب ڈالر کا جو قرضہ منظور کیا ہے اس کے لیے کیا کیا شرائط رکھی گئی ہیں۔ ان حالات میں احیائے اسلام کی تحریک ایک تنے ہوئے رسّے پر چل رہی ہے وہ صرف عوام کی حمایت نے آگے بڑھ سکتی ہے۔ امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن نے عوامی مسائل کو اٹھانے کی جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہی اس وقت ایک بہترین لائحہ عمل ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عالمی استعمار مسلمان ملکوں میں چلنے والی احیائے اسلام کی تحریکوں کو بری طرح کچل چکا ہے، مصر، الجزائر اور سوڈان کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کے حکمرانوں نے اس تحریک کو اپنی سرزمین پر اٹھنے ہی نہیں دیا حالانکہ ان کی زمینیں اس تحریک کے لیے بہت زرخیز تھیں۔ اب اِن ملکوں میں امریکی ایجنڈے پر جس تیزی سے عمل ہورہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ رہا پاکستان تو اس کے قیام کے فوراً بعد ہی امریکا اپنے ایجنڈے کے ساتھ اس میں حرکت میں آگیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی موت بھی مشکوک حالات میں ہوئی۔ پھر قائد ملت لیاقت علی خان کو بھرے جلسے میں قتل کردیا۔ مولانا مودودی نفاذ اسلام کا مطالبہ میدان میں آئے تو لاہور میں چند روز کے لیے مارشل لا لگا کر ایک فوجی عدالت سے مولانا مودودی کو سزائے موت سنا دی گئی۔ جب یہ وار خالی گیا تو فوجی آمر نے 2 سال بعد جماعت اسلامی پر پابندی لگادی لیکن اس میں بھی قدرت کی مدد جماعت اسلامی کے شامل حال رہی اور فوجی آمر کو منہ کی کھانا پڑی۔ پھر افغانستان پر امریکا کی یلغار کے دوران ایک وقت ایسا آیا کہ امریکا نے اخوان المسلمون کی طرح جماعت اسلامی کو بھی کرش کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا کیونکہ جماعت اسلامی کی قیادت جہاد اور افغان مجاہدین کی کھل کر حمایت کررہی تھی۔

یہاں بھی دست ِ غیبی نے حالات کو بگڑنے نہ دیا۔ جماعت کے تنظیمی انتخابات میں قیادت تبدیل ہوگئی اور معاملہ لٹک گیا۔ اب قیادت حافظ نعیم الرحمن کے ہاتھ میں ہے اور حالات تقاضا کررہے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کو احیائے اسلام کے مشن سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنائیں انہیں احیا ہی جماعت اسلامی کا بنیادی مشن ہے۔