اجمل سراج کی رحلت

560

ممتاز قومی شاعر اجمل سراج کینسر جیسے مہلک مرض سے لڑتے لڑتے اس جہان ِ فانی سے کوچ کر گئے۔ 53 سالہ اجمل سراج منفرد لب ولہجے کے شاعر تھے انہوں نے انتہائی کم عمری میں شعر کہنے شروع کیے۔ ان کے والد اور والدہ دونوں ہی شعر کہتے تھے ان کے والد شبہہ الحسن نے پندرہ سال کی عمر میں اجمل سراج کو لانڈھی ہی میں قریبی رہائش پزیر ڈاکٹر شاداب احسانی کے حوالے کیا جن کی شاگردی میں اجمل سراج نے شعر کہنے شروع کیے اور کراچی کی ادبی محفلوں میں انہوں نے اپنی جاندار شاعری سے لوگوں کو چونکا دیا۔ اجمل سراج کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں اپنے دور کے بہترین اور اعلیٰ سطح کے شعراء کرام کی قربت حاصل ہوئی انہوں نے سلیم احمد، قمر جمیل، جون ایلیاء، رسا چغتائی، عبیداللہ علیم، جمال احسانی، امید فاضلی، تابش دہلوی، افتخار عارف، انور شعور، انور انصاری ودیگر بڑے شعراء کرام کے ساتھ وقت گزارا۔ اجمل سراج نے اپنے کرب کو اپنے اشعار میں منتقل کیا ان کی شاعری میں مستقبل کے روشن امکان کے ساتھ ساتھ حوصلہ اور جستجو کا رنگ تھا۔ 20 سال سے زائد عرصہ تک انہوں نے جسارت کے لیے قطعات لکھے جو کہ انتہائی مشکل کام ہے روزانہ کی بنیاد پر اور حالات حاضرہ پر قطعہ لکھنا ایک کمال ہے۔

اجمل سراج ایک شاندار والدین کی اولاد تھے اور خوداریت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان نے بیرون ممالک میں بھی کئی مشاعرے پڑھے دنیا بھر میں ان کے عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ اجمل سراج کی شاعر ی میں دین کے ساتھ ساتھ خانوادہ ِرسول اہل بیت سے عقیدت ومحبت بے مثال تھی ان کی نم آنکھیں اکثر اس کی عکاسی کیا کرتی تھی، وطن اور نظریہ پاکستان کے لیے انہوں نے کئی نظمیں لکھی۔ ان کا وسیع حلقہ احباب تھا جو ان پر جان چھڑکتا اور بڑی محبت وعقیدت رکھتا تھا۔ وہ اسٹیج پر شاعری جم کر کرتے اور مشاعرہ لوٹنے کا فن جانتے تھے اللہ نے انہیں بڑی صلاحیتوں سے نوازا۔ پوری دنیا میں نام ہونے کے باوجود غرور اور تکبر ان کو چھو کر نہیں گزرا تھا وہ بڑے دلچسپ شخصیت کے مالک تھے اور بے ساختہ کلمات کہہ کر لوگوں کو حیران کردیتے تھے۔ اجمل سراج جتنے اچھے اور بڑے شاعر تھے اتنے اچھے اور بڑے وہ انسان بھی تھے۔ انہیں اقبال، غالب اور میر سے عشق تھا یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ان شعراء کرام کی جھلک نظر آتی ہے۔ رسا چغتائی اور جون ایلیاء سے انہیں بڑی رغبت اور عقیدت تھی دونوں کے آخری ایام میں اجمل سراج نے ان کی بڑی خدمت کی رسا چغتائی کو مشاعروں میں لے جانا ان کی ہی ذمے داری تھی رسا چغتائی بھی اجمل سراج سے بڑی محبت کرتے اکثر وہ خود رکشہ کر کے اجمل کے گھر پہنچ جاتے اور اجمل کے بچوں سے وہ ویسی کی محبت کرتے تھے جیسے وہ اپنے پوتوں اور نواسوں کے ساتھ کرتے تھے۔ اجمل سراج کو رسا چغتائی اور جون ایلیاء کا پورا کلام حفظ تھا اور وہ اکثر ان کی غزلیں بڑے شوق سے سنایا کرتے تھے۔ ان کے انتقال سے ادبی دنیا ایک بڑے اور نظریاتی شاعر سے محروم ہوگئی ہے سب کا دل ویران ہوگیا ہے۔ جب تک اردو شاعر ی زندہ ہے اجمل سراج زندہ رہے گا۔

عہد جدید کے جن شعراء کی وجہ سے اردو غزل کا اعتبار اور وقار قائم ہوا ہے ان میں اجمل سراج کا بھی اہم نام ہے۔ اجمل سراج نے اردو غزل میں جدت اور اسلوب کے حوالے سے نئے تجربات کیے روایت کی پاسداری کرتے ہوئے جدید سوچ اور فکر غزل کی اساس بنایا لفظ کی حرمت اور پاسداری کا خیال رکھا یہی وجہ ہے کہ ان کے الفاظ باوقار رہے انہوں نے جو کچھ کہا وہ ان کے ضمیر کی آواز تھی اور اس آواز میں ان گنت سچائیاں اور صداقتیں پوشیدہ ہیں انہوں نے اپنی زندگی کو ایک محدود نقطہ نظر اور زاویہ نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ وسیع تناظر میں دیکھا اور سمجھا وہ علاقوں اور خطوں کی تقسیم سے ہٹ کر وسیع البنیاد سوچ کی حیثیت سے دیکھتے تھے اور یہ شعور ایک بڑے انسان کی عکاسی کرتا ہے اجمل سراج کی وفات کا دکھ سب ہے انہوں نے اپنی شاعری اور محبت سے لوگوں کے دلوں کو جیتا تھا۔ ان کی شاعر ی کے سب ہی معترف تھے وہ ایک مقبول شاعر تھے ان کا حمدیہ شعر

اس نے ہر صبح سے شام کے قابل رکھا
یعنی آغاز سے انجام کے قابل رکھا
پاکستان کے لیے ان کا ایک نظریاتی شعر جو بڑے کمال کا اور حقیقت پرمبنی ہے۔
پاکستان کا ایک مقصد تھا
مقصد پاکستان نہیں تھا
اس کے علاوہ ان کے دیگر یادگا ر اشعار
سب کے ہوتے ہوئے اک روز وہ تنہا ہوگا
پھر وہ ڈھونڈے گا ہمیں اور نہیں پائے گا وہ
کتنا سوچا تھا پر اتنا تو نہیں سوچا تھا
یاد بن جائے گا وہ خواب نظر آئے گا وہ
خاک ہونا ہے بہر حال سبھی کو اجمل
موت کے سامنے درویشی و سلطانی کیا
اجمل سراج ہم اسے بھولے ہوئے تو ہیں
کیا جانے کیا کریں گے اگر یاد آگیا
اس کے علاوہ ان کا لافانی شعر لوگوں کو از بر یاد ہے کہ
میں نے اے دل تجھے سینے سے لگایا ہوا ہے
اور تو ہے کہ مری جان کو آیا ہوا ہے

اجمل سراج کی شاعری کے سب ہی معترف تھے وہ ایک عالمی سطح کے مقبول شاعر تھے ان کے اشعار لوگوں کو زبانی یاد ہیں۔ وہ ساری محفلیں سونی کرگیا ہے اللہ تعالیٰ اجمل سراج کی آئندہ کی تمام منزلیں آسان کرے۔

بجھ گیا رات وہ ستارہ بھی
حال اچھا نہیں ہمارا بھی
سوچتا ہوں بچھڑ ہی جائو گے
تم اگر مل گئے دوبارہ بھی