توہینِ عدالت اور اسلامی تعلیمات (حصہ دوم)

284

امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں: ’’سیدنا حسنؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حُکّام کو تین باتوں کا پابند بنایا ہے: (۱) خواہشات کی پیروی نہ کرو، (۲) لوگوں سے نہ ڈرو، صرف اللہ سے ڈرو، (۳) اور اللہ کی آیات کے بدلے میں معمولی قیمت نہ لو، پھر آپ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اے داوٗد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور (عدل کرنے میں) خواہشات کی پیروی نہ کرو‘‘۔ (تفسیر کبیر)

سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: قیامت کے دن ندا کرنے والا پکارے گا: ’’ظالم، اُن کے مددگار اور اُن جیسے لوگ کہاں ہیں‘‘، جو ظلم میں جتنا مددگار بنے گا، وہ اپنے کیے کی سزا پائے گا حتیٰ کہ وہ بھی جس نے ظالم قاضی کا قلم تراشا یا اُس کی دوات میں روشنائی ڈالی، الغرض ان سب کو اکٹھا کر کے لوہے کے تابوت میں ڈالا جائے گا اور پھر جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ (اَمالی ابن بشران)

رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’عادل حکمران کا عدل کرتے ہوئے ایک دن ساٹھ سال کی (مسلسل) عبادت سے افضل ہے اور زمین پر اگر اللہ کی ایک حد کو پورے حقوق کے ساتھ نافذ کیا جائے تو وہ (زمین کو) چالیس دن کی (مسلسل) بارش سے زیادہ پاکیزہ بنا دیتی ہے‘‘۔ (المعجم الاوسط) امام شافعیؒ نے فرمایا: قاضی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقدمے کے فریقین میں پانچ چیزوں میں برابری کرے: (۱) اس کے پاس داخل ہونے میں، (۲) اس کے سامنے بیٹھنے میں، (۳) ان پر توجہ دینے میں، (۴) اُن کی فریاد کو سننے میں، (۵) ان پر فیصلہ جاری کرنے میں‘‘۔ (تفسیر کبیر)

سیدنا عمر فاروق نے اپنے ماتحت قاضی کے نام ہدایت نامہ لکھا: ’’آج اگر تم نے کوئی فیصلہ کیا ہے اور پھر تم نے اپنی رائے پر غور کیا اور تجھے ہدایت کی طرف پلٹنے کی توفیق نصیب ہوئی تو حق کی طرف رجوع کرنے میں کوئی چیز تمہاری راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے، کیونکہ اصل الاصول حق ہے اور (یہ ازلی حقیقت ہے)، اسے کوئی چیز باطل نہیں کرسکتی اور باطل پر قائم رہنے کے مقابلے میں حق کی طرف لوٹ آنا بہتر ہے‘‘۔ (مَعْرِفَۃُ السُّنَنْ وَالآثَار)

الغرض منصبِ قضا دو دھاری تلوار ہے، پلِ صراط کو عبور کرنا ہے، عدل قائم کرنے میں ذرا سی لغزش تباہ کن ہے۔ اگر کوئی قاضی کو اُس کی غلطی پر مطلع کرے تو یہ توہینِ عدالت نہیں ہے، بلکہ یہ قاضی پر اُس شخص کا احسان ہے کہ اُسے انجامِ بد سے بچالیا ہے، حق آشکار ہونے کے بعد قاضی اپنے قول سے رجوع کر کے حق کی طرف پلٹ آئے، تو اس میں اس کی اہانت نہیں ہے، بلکہ اس سے اس کی عزت ووقار میں اضافہ ہوگا۔

امام احمد بن حسین بیہقی نے لکھا: ’’سیدنا زید بن ثابتؓ کی عدالت میں (خلیفۂ وقت) سیدنا عمر اور سیدنا اُبی بن کعبؓ مالک اپنا مقدمہ لے کر پیش ہوئے، جب امیر المؤمنین عدالت میں داخل ہوئے تو (قاضی) سیدنا زید بن ثابت اپنی نشست سے احتراماً اٹھ گئے اور عرض کی: امیر المؤمنین! یہاں تشریف رکھیے، سیدنا فاروق اعظم نے فرمایا: یہ تم نے پہلی نا انصافی کی، میں اپنے فریقِ مقدمہ کے ساتھ بیٹھوں گا، پھر فریقین ایک دوسرے کے برابر بیٹھ گئے، سیدنا اُبی بن کعب نے دعویٰ پیش کیا اور سیدنا عمر فاروق نے اس دعوے کو قبول کرنے سے انکار کیا (شریعت کا اصول یہ ہے کہ مدّعی اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے گواہ پیش کرے یا اگر مُدّعیٰ علیہ قبولِ دعویٰ سے انکاری ہے، تو اُسے قسم دی جائے گی)، پس (قاضی) سیدنا زید بن ثابت نے فریقِ مقدمہ اُبی بن کعب سے کہا: امیر المؤمنین کو حلف سے معاف رکھو، سیدنا عمر نے شریعت کے تقاضے کے مطابق قسم کھائی اور کہا: جب تک (قاضی) زید بن ثابت کے نزدیک عمر اور دوسرا فریق برابر نہ ہوں، انہیں کوئی مقدمہ سپرد نہ کیا جائے‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی:) امیر المؤمنین سیدنا عمر نے اصولِ قضا کے تحت (قاضی) سیدنا زید بن ثابت کی غلطی کی نشاندہی کی، تو انہوں نے اسے تسلیم کیا اور اسے توہینِ عدالت پر محمول نہیں کیا۔

آج کل ایسی کئی نظیریں مل جائیں گی: لگتا ہے کہ جج مغلوب الغضب ہے، فریقِ مقدمہ کو اُس کی غیر جانبداری پر اعتماد نہیں ہے، لیکن وہ مُصر ہے کہ ہر صورت میں وہ خود ہی اس کا فیصلہ کرے گا، اگرچہ یہ اُس کا حق ہے، لیکن یہ رویہ اعلیٰ عدالتی روایات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ نے قاضی کے لیے ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے لکھا: ’’قاضی (فیصلہ کرتے وقت) غصے، طبیعت کی بے چینی، تنگ دلی، لوگوں کو اذیت پہنچانے اور مصنوعی دہشت طاری کرنے سے بچے‘‘۔ (مَعْرِفَۃُ السُّنَنْ وَالآثَار)

امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ نے قاضی کے بارے میں لکھا: ’’قاضی میں جب تک پانچ خصلتیں نہ ہوں، وہ منصبِ قضا پر نہ بیٹھے: (الف) وہ پاکدامن ہو (اُس کے کردار پر کوئی داغ دھبا نہ ہو)، (ب) حلیم وبردبار ہو (مغلوب الغضب نہ ہو)، (ج) حقائقِ مقدمہ سے آگاہ ہو (جہل پر مبنی فیصلہ نہ کرے)، (د) اہلِ عقل وخرد سے مشورہ کرے، (ہ) اس بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرے‘‘۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا: قاضی میں سات خصلتیں ہونی چاہییں، اگر ان میں سے ایک خصلت بھی قاضی کی شخصیت میں مفقود ہو، تو یہ اس کے لیے عیب شمار ہوگا، وہ سات خصلتیں یہ ہیں: ’’عقلِ (سلیم)، فقہ، ورع وتقویٰ، پاکیزگیِ کردار، رائے کی درستی، عالم بالسُّنّہ اور دینی حکمتوں کو جاننے والا ہو‘‘، سعید نے ان امور کا اضافہ کیا: ’’سمجھدار ہو، بردبار ہو، پاک دامن ہو، مضبوط قوتِ ارادی کا مالک ہو، جو چیز نہیں جانتا، اُس کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے سوال کرنے والا ہو‘‘، ایک روایت میں ہے: ’’ائمۂ فقہ کے اقوال کا علم رکھتا ہو،

قوتِ فیصلہ میں کمزور نہ ہو‘‘۔

اس موضوع پر ہم نے قلم اس لیے اٹھایا ہے کہ جس تسلسل کے ساتھ ہماری اعلیٰ عدالتیں قانونِ توہینِ عدالت کو استعمال کر رہی ہیں، اس کی مثال معاصر دنیا میں بھی نہیں ملتی، حالانکہ دنیا میں ملوکیتیں بھی ہیں، آمریتیں بھی ہیں، جمہوریتیں بھی ہیں۔ اگر ہم 2012 سے اب تک کے اعداد وشمار جمع کریں تو ہمارے ملک میں توہینِ عدالت کے قانون کا نفاذ آبادی کے تناسب سے دنیا میں سب سے زیادہ نظر آئے گا اور یہ اچھی علامت نہیں ہے کہ قاضی اپنے سارے کردار کو قانونِ توہینِ عدالت کے حصار میں لے لے اور اپنی کمزوریوں پر مطلع کرنے والے کو توہینِ عدالت کے الزام میں جیل میں ڈال دے۔ خود پاکستان میں بھی 2012 سے پہلے توہینِ عدالت کا اس طرح بے دریغ استعمال نہیں تھا، یہ آزاد عدلیہ کی تحریک کی دَین ہے، جو سب کے گلے پڑی ہے۔ اس کے تحت منتخب وزیر اعظم کو ’’بہ یک بینی ودوگوش‘‘ کھڑے کھڑے گھر بھیج دیا گیا، حالانکہ اُسے پورے ملک کے رائے دہندگان کی اکثریت نے بالواسطہ منتخب کیا تھا، اگر ایک شخص کی رائے کو اتنی وقعت دے دی جائے کہ اُس کے مقابل پوری قوم کی اجماعی یا اکثریتی رائے یکسر معطّل کردی جائے، تو ذہنوں میں سوالات کا اٹھنا ناگزیر ہے، کیونکہ کوئی بھی جج محفوظ عن الخطا نہیں ہوتا۔ جسٹس ثاقب نثار کا تو تکیہ کلام تھا: ہر فریقِ مقدمہ سے کہتے: ’’آرٹیکل 62۔ ایف تو ہے نا!‘‘، گویا یہ برہنہ تلوار اُن کے ہاتھ میں ہر وقت رہتی کہ جس کی گردن پہ چاہتے چلا دیتے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے (رسولِ مکرم!) آپ کے ربّ کی قسم! (یہ ہزار ایمان کا دعویٰ کریں مگر) یہ لوگ اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے، جب تک یہ آپس کے تنازعات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر آپ کے کیے ہوئے فیصلے کو (نہ صرف یہ کہ ظاہراً قبول کریں، بلکہ) اپنے دلوں میں بھی اس کے بارے میں کوئی تنگی (اور ملال) محسوس نہ کریں اور اس فیصلے کو پوری خوش دلی سے تسلیم کرلیں‘‘۔ (النسآء: 65)
(جاری ہے)