ہماری اقدار

236

دل کرتا ہے کہ میں سچ مچ کا دانشور بن جائوں، ایسا کہ ہر معاملے میں اپنی دو ٹو ک رائے دوں، لوگوں سے گفتگو کروں، سیاست پر بات کروں، مگر جب عوام کو، ووٹرز کو ہمیشہ ہی دریاں بچھاتے، کرسیاں اٹھاتے، تالیاں بجانے والی مشین بنے رہنا دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے۔ دل مرجھا سا جاتا ہے کہ ان کے نصیب میں بس یہی کچھ ہے کہ دریاں بچھائیں اور تالیاں بجائیں۔ یہ لوگ کبھی ستیْ پر نہیں بیٹھ سکیں گے؟ کبھی یہ بھی دل کرتا ہے کہ سیاست دانوں کا ایندھن بننے والے عوام کی تربیت کروں انہیں سمجھائوں کہ تم کہاں جارہے ہو، اپنی صحت کا خیال رکھو، اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دو، اپنے بچوں کو اچھی تربیت دینا بھی صدقہ ہے، دوسروں سے مسکرا کر بات کرنا بھی صدقہ ہے، راستے سے رکاوٹ ہٹانا بھی صدقہ ہے، مگر یہ سب کچھ سیاست کیوں نہیں سمجھتے۔ اگر یہ بات سمجھتے ہوں تو راستے نہ بند کریں۔ راستے بند ہوجانے سے نہ معلوم کتنے مریض خوار ہوتے ہیں۔ کیا کسی کو اس بات کا علم ہے؟

اچھے والدین بچوں کو سکھاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، سو نماز پڑھو، روزہ رکھو، پردہ کرو مگر ہمارے اجتماعات اور شادیوں میں دکھاوا اور مادیت پرستی دیکھ کر بچے الجھ نہیں جاتے ہوں گے؟ ہم اسکولوں، کالجوں میں بچوں کا داخلہ تو کروا دیتے ہیں مگر اُس کے بعد وہ فقط نوکری کے متلاشی بن کر رہ جاتے ہیں۔ اُن کے پاس ڈگری تو ہوتی ہے مگر اُن کی اکثریت تنقیدی شعور سے عاری رہ جاتی ہے ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی کی ایک وجہ کتاب سے دوری بھی ہے۔ بچوں کی تربیت اب والدین اور اتالیق کم، جبکہ میڈیا زیادہ کرتا ہے۔ میڈیا نے استاد کی جگہ سنبھال لی ہے، اب جو کچھ ہم ٹی وی پر دیکھتے ہیں وہی ہماری اقدار ہیں۔ موبائل فون کے اشتہارات ہوں یا ٹاک شوز میں بدکلامی، بچوں کی تربیت کا ذریعہ یہی ہے جب کہ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو شروع ہی سے فنانشل مینجمنٹ کی تربیت دینی چاہیے اور کاروبار کی عادت ڈالنی چاہیے اِن سب سے بڑھ کر اخلاقی تربیت ہے جس کی طرف کوئی توجہ نہیں بلکہ اُلٹا اکثر والدین اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ چونکہ اِس ملک میں کوئی قانون قاعدہ نہیں لہٰذا اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ آزمانا چاہیے۔ جس سختی سے ہم حلال گوشت کھانے کی ترغیب دیتے ہیں اُس سختی سے اگر ہم نے حلال دولت کمانے کی ترغیب دی ہوتی تو آج قوم کا یہ حال نہ ہوتا۔

ایک مفروضہ ہے کہ ہماری قوم اِس قدر بگڑ چکی ہے کہ اب اِس کے سدھرنے کی کوئی صورت نہیں، بڑھتے ہوئے بچوں کو جو سکھایا جاتا ہے وہ سیکھ جاتے ہیں، ہم نے اپنے بچوں کو جو کچھ سکھایا اسی قسم کی قوم بن گئی۔ اگر ہم انہیں آئین اور قانون کی عملداری کا سبق سکھاتے تو وہ یہ سبق بھی سیکھ جاتے لیکن ہمارے تعلیمی اداروں میں یونین پر پابندی ہے، گویا سیاست کو جرم بنا دیا گیا ہے، اور آئین اور قانون کی حرمت کے بارے میں کوئی سبق کم ازکم میری نظر سے تو نہیں گزرا اور نہ ہی ہمارے گھروں میں اِس پر گفتگو ہوتی ہے، ہماری گفتگو تو محض اِس بات کے گرد گھومتی ہے کہ شادی بیاہ میں کون سا جوڑا پہننا ہے اور کس ماڈل کی گاڑی خرید کر لوگوں کو متاثر کرنا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِن کاموں میں ہمارا کوئی ثانی نہیں کیونکہ یہ کام ہمیں بچپن سے سکھائے جاتے ہیں، اِس کے برعکس اگر کوئی ڈھنگ کی بات سکھا دی جاتی تو یہی بگڑی ہوئی قوم وہ بات بھی سیکھ لیتی اور سدھر جاتی۔ افسوس اِس بات کا نہیں کہ ہم کچھ سیکھ نہیں سکے، ماتم اِس بات کا ہے کہ اپنے بچوں کو بھی نہیں سکھانا چاہتے۔ اخلاقی تربیت نہ کسی فرد کے ایجنڈے پر ہے اور نہ اجتماعی طور پر ہمارے ریڈار پر ہے۔ کامیابی کا معیار قومی سطح پر معیشت کی بحالی ہے اور انفرادی سطح پر دولت کمانا۔ اِن دونوں باتوں میں کوئی مضائقہ نہیں، ہمیں اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنے کی تمنا ضرور کرنی چاہیے مگر اُن کی اخلاقی تربیت پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔