مایوسی ایک ایجنڈا

278

مشہور کہاوت ہے کہ دنیا اُمید پر قائم ہے۔ دنیا میں انسان اُمیدوں کے سہارے زندگی گزارتا ہے۔ اُمید خواہشات کے پورے ہونے کی توقع یا صورت کے پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ اسی لیے اُمید کے مترادف الفاظ آرزو، جستجو، خواہش، اور توقع ہیں۔ اگر اس لفظ کے متضاد الفاظ دیکھیں تو مایوسی، قنوط اور ناامیدی ہیں۔ امید تبدیلیوں کے در وا کرتی ہے۔ ایک کسان جب ایک بنجر زمیں پر محنت کرتا ہے اور اس زمین کو کاشت کاری کے قابل بناتا ہے۔ اس کی محنت اور جدوجہد کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کے پیچھے یہی امید ہوتی ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ یہ زمین پیداوار لائے گی یہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے کسان اپنے آرام کو ترک کردیتا ہے اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں لگاتا ہے اور پھر ایک دن اس کی امیدیں بر آتی ہیں کہ غلّہ وہ منڈی میں فروخت کرکے پیسے وصول کرتا ہے۔ انسان جاگتے ہوئے خواب تو نہیں دیکھتا ہے مگر یہی وہ امیدیں ہوتی ہیں جس کو وہ بطور خواب اپنے مستقبل کے لیے سجاتا ہے اور جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتی تو یہی وہ خواب ہیں جو چکنا چور ہوجاتے ہیں گویا وہ ناامیدی کے دلدل میں دھنسنا شروع ہوتا ہے۔ ناامیدی انسان کے حوصلوں کے لیے سم قاتل ہے یہ انسان کو کچھ کرنے سے پہلے ہی کچھ نہ کرسکنے کا پیغام سنا کر بٹھا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے انسان کو دین اسلام نے یہ پیغام دیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال کا مشاہد یہ بتارہا ہے کہ حکمران اور ادارے قوم کے اندر مایوسی پھیلانے کے ایجنڈے پر کاربند ہیں اور اس میں بھی ان کا ہدف نوجوان ہیں حکمران اور تمام ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ مایوسی اور نا امیدی کے سائے جتنے زیادہ گہرے ہوں گے ان کا کام اتنا آسان ہوگا۔ پاکستانی قوم جس وقت آزادی کی دولت سے سرفراز ہوئی اس وقت معیشت کمزور تھی، فوج کمزور تھی بمعنی جدید ہتھیار، سرکاری دفاتر میں کاغذ اور فرنیچر بھی پورے نہ تھے مسائل کا ایک جنگل تھا مگر اس وقت امیدوں کے ساتھ قوم آگے بڑھ رہی تھی مگر انگریزوں کے شاگردوں نے جب اقتدار پر ایوّب خان کی صورت میں قبضہ کیا تو ان شاگردوں نے اپنے استادوں کے اصول کو اپنایا اور وہ یہ تھا کہ قوم کو مایوس کردیا جائے۔ پاکستان کے اندر مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہوچکی ہے کہ لوگ خود کشیوں پر اتر آئے ہیں وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کے تقریباً ستّر سال ہوچکے ہیں۔ اسے میں عوام کا کسی جماعت پر اعتماد کرنا آسان نہیں ہیں۔ عوام صحرا کے اس مسافر کی طرح جو راستہ بھٹک چکا ہے سفر کرتے کرتے کسی جگہ سوجائے کہ اب موت ہی آنی ہے۔ ایک مسلمان جس کے دل میں ایمان کی شمع جل رہی ہو وہ کبھی بھی مایوس ہوکر نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا ربّ اللہ ہے اس کی رحمت بڑی وسیع ہے اس کی رحمت سے مایوس ہونا گویا کفر ہے۔ اس وقت جب پاکستان کے قیام کے اسباب بظاہر نظر نہیں آتے تھے مگر جدوجہد کے نتیجے میں اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی اور پاکستان وجود میں آگیا مگر آج تو پاکستان کے حالات کی بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ منزل دور ہے مگر نظر آرہی ہے مثال کے طور پر حق دو کراچی کی تحریک کے نتیجے میں کراچی کے سارے تو نہیں مگر کچھ بڑے مسائل حل ہوئے اور کچھ مسائل عوام کے سامنے آئے حقوق غصب کرنے والوں کے چہروں پر سے نقاب اتر گئے اسی طرح جب یہی تحریک حق دو عوام کی تحریک میں ڈھلی تو اس سے بھی بہت سے مسائل کی وجہ سامنے آنے لگی اور ا سی جدوجہد کے نتیجے میں وہ لوگ جو کہ مسائل کھڑے کرنے والے تھے وہ بھی مسائل کا اعتراف کرنے لگے انہی مسائل کی وجوہات میں آئی پی پیز سے ظالمانہ معاہدات، مراعات یافتہ اشرافیہ بھی سامنے آیا۔ سیاسی جماعتیں اس وقت مسائل کا رونا عوام کے سامنے روتی ہیں جب انتخابات میں عوام سے ووٹ لینا ہوتا ہے اور عوام میں ووٹ لینے کے لیے جانا ہوتا ہے اس کے بعد عوام ان کے لیے غیر اہم ہوجاتے ہیں۔ اس پورے پس منظر میں جب کہ نہ انتخابات قریب ہیں نہ کوئی کرسی کی رسہ کشی ہے جماعت اسلامی ہی وہ واحد عوامی جماعت ہے جس کی حق دو عوام تحریک عوام کو متوجہ کررہی ہے کہ منزل دور سہی مگر نظر آرہی ہے دوسری بات اس سے اہم ہے کہ جماعت اسلامی کی جدوجہدکے بے لوث ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ دور دور تک انتخابات نہیں ہیں عوام سے ووٹ لینے کے لیے جانا ہے۔ بس عوام کا کام یہی ہے کہ مایوسی کی چادر جس کو حکمرانوں اور اداروں نے آپ کے اوپر ڈال دی ہے۔ اور بار بار یہ باو ر کرایا جارہا ہے کہ ان دھرنوں، احتجاجوں سے کچھ نہیں ہونے والا حالات ایسے ہی رہیں گے اس کیفیت سے باہر نکلیں۔ جب ہاتھی کے بچّے کو جنگل سے پکڑ کر لایا جاتا ہے تو اس کے پیروں میں ایک زنجیر ڈال دی جاتی ہے وہ بچہّ بار بار اس زنجیر کو توڑنے کی کوشش کرتا رہتا ہے مگر اس وقت وہ اس کو توڑ نہیں پاتا مگر وہی ہاتھی جب جوان ہوجاتا ہے اور اس کے ایک ہی جھٹکے سے زنجیر ٹوٹ سکتی ہو وہ زنجیر کو توڑنے کی کوشش ہی نہیں کرتا کیونکہ وہ مایوس ہوچکا ہوتا ہے۔ یہ حکمران طبقہ اور جتنے بھی ادارے ہیں یہ مفادات کے اسیر ہیں یہ وہ دیمک ہے جو اس عمارت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرچکی ہے صرف دیکھنے کی عمارت ہے یہ ایک ہی عوامی دھکے سے زمین بوس ہوجائے گی بنگلا دیش کی حالیہ تحریک اس بات کی شاہدہے۔ آئیے مایوسی سے بچیں اور جماعت اسلامی پر اعتماد کریں۔