خودی کی زندگی کے مقاصد

91

اقبال فارسی کلام

زندگانی را بقا از مدعاست
کاروانش را درا از مدعاست

مطلب: زندگی کا وجود مقصد پر موقوف ہے اس (زندگی) کے قافلے میں مقصد کو جرس کی حیثیت حاصل ہے۔

زندگی در جستجو پوشیدہ است
اصل او در آرزو پوشیدہ است

مطلب: زندگی تلاش و جستجو میں پوشیدہ ہے اس کی اصل و اساس آرزو میں چھپی ہوئی ہے۔

آرزو را در دل خود زندہ دار
تا نگردد مشت خاک تو مزار

مطلب: تو اپنے دل میں آرزو کو زندہ رکھ، تاکہ بصور ت دیگر تیری یہ مٹھی بھر خاک مزار کی صورت اختیار نہ کر جائے۔

آرزو جان جہان رنگ و بوست
فطرت ہر شے امین آرزوست

مطلب: آرزو اس کائنات رنگ و بو کی جان ہے۔ ہر شے کی فطرت آرزو کی امانت دار ہے۔

از تمنا رقص دل در سینہ ہا
سینہ ہا از تاب او آئینہ ہا

مطلب: تمنا و آرزو ہی سے دل سینوں میں دھڑکتے ہیں اور سینے، اسی آرزو کی بدولت چمک کر آئینے بنتے ہیں۔