محنت کشوں کا مطالبات کی منظوری کے لیے دھرنے کا اعلان

143

ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن اور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان کے زیراہتمام ’’لیبر کانفرنس‘‘ کا انعقاد مقامی آڈیٹوریم میں کیا گیا جس میں مزدوروں کی بڑی تعداد کے علاوہ مزدور تنظیموں کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔
مزدور رہنمائوں نے حکومت سندھ کے مزدور دشمن رویے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ 3ماہ گزرنے کے باوجود کم از کم اجرت کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کو غیر ملکی دوروں سے ہی فرصت نہیں کہ وہ لاکھوں محنت کش خاندانوں کے لیے اہم ترین مسئلہ پر توجہ دے سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت اور دیگر تین صوبائی حکومتوں کم از کم اجرت کا سرکاری نوٹیفکیشن جاری کر چکی ہیں لیکن عوام کا نام لینے والی حکومت اب تک مزدوروں کو بنیادی حق سے محروم کیے ہو ئی ہے۔ مزدور نمائندوں نے سندھ میں مزدوروں سے روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیکٹریوں کارخانوں میں لاقانونیت کا راج ہے جہاں لیبر قوانین کی کھلے عام خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں جب کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ اس پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔

ورکرز کو مسلسل بنا جواز ملازمتوں سے برخاست کیا جا رہا ہے ، مزدور عورتوں سے ہراسگی کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔ 10سے 12گھنٹے جبری کام لازم ہو گیا ہے، کم از کم اجرت کی عدم ادائیگی کا مسئلہ کینسر کی طرح پھیل گیا، سوشل سیکورٹی اور پنشن سے ورکرز کی لازمی رجسٹریشن کے قانون کو ہوا میں اُڑا دیا گیا ہے۔ اس پرمتزاد یہ کہ غیر قانونی ٹھیکہ داری نظام کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے سندھ لیبر ڈیپارٹمنٹ اور آئی ایل او مل کر ’’سندھ لیبر کوڈ‘‘ کو مسلط کرنے کی سازش میں مصروف ہیں۔ مزدور رہنماوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری سے اپیل کی کہ وہ حکومت سندھ خصوصا وزارت محنت کے مزدور دشمن طرز عمل کا فی الفور نوٹس لیں تاکہ مزدور میں پھیلی بے چینی کا سدباب ہو سکے۔ مزدور رہنمائوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مزدور طبقہ سے اپیل کی وہ مذہبی، لسانی، گروہی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا تر ہو کر اپنی طبقاتی شناخت کی بنا پر صفوں میں اتحاد قائم کریں۔

مزدور رہنماوں نے مطالبہ کیا کہ 1۔ کم از کم اجرتوں کے سرکاری نوٹیفکیشن کا فی الفور اجراء کیا جائے۔ 2۔ غیر قانونی ٹھیکہ داری نظام کو روکنے کرلیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ 3۔ سندھ لیبر کوڈ کو فی الفور واپس لیا اور اس مزدور دشمن دستاویز کو قانونی شکل دینے کی سازش میں ملوث لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ 4۔ تمام ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور پنشن کے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے۔
لیبر کانفرنس میں نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی نے ایک وفد کے ساتھ شرکت کی۔ وفد میں این ایل ایف کے مرکزی عہدے داران سید نظام الدین شاہ، ظفر خان، خالد خان، طیب اعجازاور امیر روان شامل تھے۔ اس موقع پر شمس الرحمن سواتی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے لیے محبت اور خیر خواہی کا پیغام لے کر آیا ہوں ہم سب مزدور ہیں اور ہمیں مل کر مزدوروں کی معاشی حالت کو بدلنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مزدور تحریک کو اتنا نقصان ظلم کے نظام میں نہیں پہنچایا جتنا نام نہاد مزدور رہنماؤں نے پہنچایا ہے، آج ملک میں ٹریڈ یونین سسک رہی ہے، ٹھیکیداری نظام نے بیگار کیمپ کی شکل اختیار کر لی ہے، 83 فیصد دیہاڑی دار مزدور پہلے ہی لیبر قوانین اور سماجی تحفظ سے محروم تھا اور اب سندھ اور پنجاب لیبر کوڈ کے نام پر مستقل ملازمتوں کو ختم کر کے ٹھیکیداری نظام کو اپنایا جا رہا ہے، ٹریڈ یونین کا حق سلب کیا جا رہا ہے اور اس وقت ملک میں غربت عروج پر ہے، ملک کے 13 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور 3 کروڑ 70 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ حالات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ مزدور تحریک کی ہر سطح کی قیادت تمام ٹریڈ یونینز فیڈریشن اور این جی اوز مشترکہ مقاصد کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کریں۔

ظالمانہ سرمایہ داری جاگیرداری نظام نے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ 77 سال سے جاگیردار سرمایہ دار اور افسر شاہی ایک ٹرائیکا بنا کر اس ملک پر مسلط ہیں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے، بنیادی انسانی حقوق تک میسر نہیں ہیں۔ ریڈی یونین کی پاداش میں دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جب تک مزدور کسان غریب عوام مل کر اس نظام کے خاتمے کے لیے مشترکہ جدوجہد نہیں کریں گے، یہ نظام غریب عوام کو ہڑپ لے گا۔ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ ہمیں سراب کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے، آئین پاکستان جن بنیادی حقوق کے ضمانت دیتا ہے، یہ ٹرائیکا ان حقوق کو چھین رہا ہے، ایسے میں ہمیں نبی مہربان حضرت محمد مصطفیؐ کے ان فرمودات کو کہ جو انہوں نے مزدوروں کے حوالے سے فرمائے کہ مالک اور مزدور بھائی بھائی ہیں، یہ صنعتی تعلقات کا بہترین ماڈل ہے، مالک اور مزدور بھائی ہوں گے تو دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے، آپؐ نے فرمایا انہیں کھانے کے لیے وہی دو جو تم خود کھاتے ہو اور انہیں پہننے کے لیے بھی وہی دو جو تم خود پہنتے ہو انہیں اپنے منافع میں شریک کرو ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو ان کی مزدوری ان کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ مزدوروں کے یہ حقوق آئین پاکستان کا تقاضا ہے اور جو یہ حقوق ادا نہیں کرتا وہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا ایک مشترکہ جدوجہد سے ہی ہم مزدوروں کو ان مسائل اور مشکلات سے نکال سکتے ہیں، ملک کی تعمیر اور ترقی میں بنیادی کردار ادا کرنے والے مزدوروں کی محرومیوں کو دور کر سکتے ہیں، ان کے بچوں کی تعلیم علاج اور ان کے سروں پر چھت ان کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی اور خوشحال مزدور یہ مقاصد تقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں متحد ہو کر جدوجہد کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔لیبر کانفرنس میں یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اگر ایک ہفتہ میں اجرتوں کے نوٹیفکیشن کا اجراء نہ ہوا اور دیگر مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کا اعلان نہ کیا گیا تو سندھ اسمبلی کے سامنے ’’مزدور دھرنا ‘‘ دیا جائے گا۔

کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں ناصر منصور، جنرل سیکرٹری نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان، حبیب الدین جنیدی، صدر پیپلز لیبر بیورو، راغب علی، جنرل سیکرٹری مہران لیبر فیڈریشن ، زہرا خان، جنرل سیکرٹری ہوم بیسڈ وومن فیڈریشن، شمس الرحمن سواتی صدر این ایل ایف پاکستان اور خالد خان صدر این ایل ایف کراچی، رفیق بلوچ، صدرنیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، قاضی خضر، وائس چیئرپرسن سندھ ایچ آر سی پی، ریاض عباسی سائٹ لیبر فورم، گل رحمان شہری عوامی محاذ، منصور رضی، وسیم جمال، طالب کچھی، عباس حیدر، بشیر محمودانی گڈانی شپ بریکنگ لیبر یونین، سائرہ فردوس ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن، عاقب حسین، آرگنائزر الٹرنٹ ، اقبال ابڑو، ٹیکسٹائل اینڈ گارمنٹس جنرل ورکرز یونین کے ہمت پھلپوٹو و دیگر شامل تھے۔