سچ ہمیشہ کڑوا نہیں ہوتا بلکہ شیریں بھی ہوتا ہے اور اگر سچ اعترافی ہو تو مزہ ہی دو بالا ہوجاتا ہے گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک سچا بیان دیکھنے کو ملا محترم سعید غنی کا جو کہ پیپلز پارٹی کے مقبول ترین رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں اور کراچی کی سیاست کے حوالے سے ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں آج کل حکومت سندھ میں وزیر بلدیات ہیں اور اسی حوالے سے اعتراف کرتے ہیں کہ بلدیاتی ادارے اس طرح عوام کی خدمت نہیں کر پا رہے جیسی کہ انہیں کرنی چاہیے۔ یہ محترم سعید غنی صاحب کا بڑا پن ہے کہ وہ اپنی ہی وزارت کی کوتاہیوں کا اعتراف کر رہے ہیں جبکہ میئر کراچی جو کہ اصل ذمے دار ہیں اس حقیقت سے ہمیشہ ہی انحراف کرتے چلے آرہے ہیں اور ہمیشہ بہت اچھا کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں جب میڈیا چینل بارش میں جگہ جگہ سڑکوں کو زیر آب دکھاتے ہیں اخبارات سڑکوں پر پڑے گڑھوں اور جا بجا کچرے کے ڈھیروں کو نشان دہی کرتے ہیں تو میئر صاحب کسی کشادہ اور صاف ستھری سڑک پر کھڑے ہو کر ویڈیو بنوا رہے ہوتے ہیں اور اس جگہ جانے سے گریز کرتے ہیں جس کی نشان دہی کی جاتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مرتضیٰ وہاب کی پشت پر بلاول زرداری کا ہاتھ ہے یہی وجہ ہے جب کراچی کے نالوں سے پانی اُبل رہا تھا اور سڑکیں تالاب کا منظر پیش کر رہی تھی اس وقت بلاول زرداری فرما رہے تھے کہ کراچی میں 75 ملی میٹر بارش ہوا مگر مرتضیٰ وہاب نے اسے چند گھنٹوں میں بہا دیا اسی حوصلہ افزائی کی وجہ سے مرتضیٰ وہاب کام کم اور بڑھکیں زیادہ مارتے ہیں بلکہ سنا ہے کہ وہ اب عملی کاموں سے کنارہ کش ہو گئے ہیں اور صرف دستاویزات پر دستخط کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور اب ایک نئی خبر یہ آئی ہے کہ مرتضیٰ وہاب صاحب جو پہلے میئر کراچی کے علاوہ حکومت سندھ کے ترجمان تو تھے ہی اب بلاول کے خصوصی ترجمان بننے کی مبارکبادیں وصول کر رہے ہیں اور محترم سعید غنی کو شرمندہ ہونا پڑا رہاہے۔
سعید غنی نے صحافیوں سے شکوہ کیا کہ آپ صحافیوں کو بھی ذمے داری سے کام لینا چاہیے اور سچ لکھنا چاہیے تاکہ ہم نوٹس لیں ہم یہاں وضاحت کرتے چلیں کہ ہم صحافی تو نہیں کالم نگاری ہمارا مشغلہ ہے (ہمارے ایک دوست محترم یونس بتوک تو ہمیں لکھاری کہتے ہیں) ہم بھی آپ کی توجہ ایک سچ ہی کی طرف کرانا چاہتے ہیں یہ سچ ہے مگر کڑواہٹ لیے ہوئے ہیں اور اس کرواہٹ کی وجہ وہی میئر کراچی کا طرز عمل ہے یہ بات ہے 28 مارچ 2022 کی جب آج کے میئر کراچی کل کے ایڈمنسٹریٹر کراچی ہوا کرتے تھے انہوں نے ملیر کالونی کے دو داخل راستوں یعنی کالا بورڈ اور ملیر 15 تا سعودآباد چورنگی کی دو طرفہ سڑک کی دوبارہ تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا تھا جو کسی عالمی ادارے کے تعاون سے بنائی جانی تھی طریقے کار تو یہ ہوتا ہے جب کسی شاہراہ کی ازسر نو تعمیر کا آغاز کیا جاتا ہے تو پہلے ایک عارضی شاہراہ بنائی جاتی ہے تاکہ ٹریفک کو اس طرف منتقل کر دیا جائے اور اگر سڑک دو طرفہ ہے تو پھر پہلے ایک طرف کی سڑک کو کشادہ کر کے عارضی کارپیٹنگ کر دی جاتی ہے تاکہ ٹریفک کی روانی میں خلل نہ پڑے مگر یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا اور عوام الناس اسی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر ہچکولے کھاتے رہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ نو تعمیر بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوئی اور کارپیٹنگ سے قبل ہی تمام سروسز کی لائنیں ڈال دی گئیں سیوریج کی پوری نئی لائن بچھائی گئی اور مضبوط گٹر بھی بنائے گئے پھر فائنل کارپیٹنگ سے قبل ہی فٹ پاتھ اور گرین بیلٹ کے پتھر لگائے گئے البتہ فٹ پاتھ نہیں بنائے گئے کہ اس شاہراہ پر جا بجا دکانیں موجود ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ بلدیہ نے فٹ پاتھ کی زمین اور اس سے ملحقہ نالہ بھی ان دوکانداروں کو الاٹ کردیے مگر ایک بہت بڑا ٹکڑا ایسا بھی ہے جو نالے کے بالکل کنارے پر ہے جس کے اکثر پتھر نالے کے اندر گرچکے ہیں جو کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں پھر اسی
حالت میں ٹریفک کو روانی کے لیے کھول دیا گیا اور میئر صاحب کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ فیتا کاٹنے ہی آتے مگر آتے کس منہ سے کہ ان کی کارکردگی نے تو ان کو اس قابل چھوڑا ہی نہیں کہ وہ عوام میں آ سکیں۔
یہ تو روداد تھی کالا بورڈ سے سعود آباد چورنگی کی مگر ملیر 15 تا سعودآباد چورنگی کی صورتحال بالکل مختلف رہی اور جس انداز میں شروع کی گئی تھی ہمارا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے اب جا کے معلوم ہوا کہ ساری دال ہی کالی ہے اس سڑک کی تعمیر بھی اسی بھرپور اچھے انداز شروع کی گئی مگر نصف حصے تک کام کا آغاز ہوا (سعود آباد چورنگی تا جناح اسکوائر) پھر پہلی کارپیٹنگ کے بعد فٹ پاتھ کے پتھر لگانے کے کام کا آغاز ہوا مگر یہاں ایک جدید ٹیکنک نظرآئی کہ سڑک پر کارپیٹنگ کے بجائے سولڈ بلاک چن دیے گئے اور یوں ایک رو کی کارپیٹنگ کی بچت کر لی گئی پھر گرین بیلٹ کے پرانے پتھروں کو بھی جوں کا توں چھوڑیا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ ایک سال سے یہ کام بھی بند پڑا ہے اس دوران یہ ضرور ہوا کہ ملیر 15 تا ناد علی تک کی روڈ کو ہموار کر کے عارضی کارپٹنگ کر دی گئی تاکہ جلوس کی روانی میں خلل نہ پڑے مگر درمیان کا چند فرلانگ کا ٹکڑا (جناح اسکوائر تا نادعلی) کو ایسے ہی چھوڑ دیا گیا اس ٹکڑے کی خستہ حالی کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ نے چلنے سے انکار کر دیا اور یوں ملیر کے عوام عرصہ دراز سے پبلک ٹرانسپورٹ سے نا آشنا ہو گئے ہیں۔ پیپلز بس سروس R-1 کا روٹ پہلے براستہ ماڈل کالونی پھاٹک تھا مگر سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے اس کا روٹ ملیر کھوکھراپار / کالابوڑ کی طرف کر دیا گیا، ملیر کالونی کی قدیم آبادی پبلک ٹرانسپورٹ سے مایوس ہو چکی ہے محترم سعید غنی ہم نے بحیثیت قلمکار اپنا فرض ادا کر دیا ہم یہ وضاحت بھی کرتے چلیں کہ یہی تمام گزارشات ہم محترم مرتضی وہاب سے بھی کرچکے ہیں (روزنامہ جسارت 29 فروری 2024) مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ دی اب آپ کی باری ہے اپ کب نوٹس لیتے ہیں ہمیں انتظار رہے گا۔