ّ10لوگوں کا جرم ہزاروں بے گناہوں کو سزا

207

مضامین بھیجنے میں تاخیر کی عموماًکچھ ذاتی وجوہات ہوتی ہیں جن میں کچھ گھریلو مصرفیات کے علاوہ طبیعت کے اونچ نیچ کا مسئلہ بھی ہوجاتا ہے لیکن اس دفعہ جو تاخیر ہورہی ہے اس کی وجہ کے الیکٹرک ہے۔ کراچی کے شہریوں پر مسلط اس ادارے کے جرائم کی داستان اتنی طویل ہے کہ وہ ایک دو کالم میں نہیں آسکتیں، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ ایک کتاب کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا میں تین کمیونٹیز یا ادارے ایسے ہیں جو اپنے مخالفین کو دبانے یا کچلنے کے لیے اپنی من مانی کرتے ہیں اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا پہلی تو جیوڈیش کمیونٹی جس کی ایک شاخ اسرائیل میں متحرک ہے اور وہ معصوم فلسطینیوں کے خلاف تمام بین الاقوامی قواعد و ضوابط کو پامال کرتے ہوئے ظلم کی ایسی تاریخ مرتب کررہے ہیں کہ ماضی بعید و قریب اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اب تو اسرائیل اقوام متحدہ کے اسکول اور اسپتالوں کو بھی نہیں چھوڑ رہا ہے لیکن عالمی طاقتیں بے حسی کی چادر تانے سورہے ہیں فلسطینیوں پر اس ظلم کے وہ بھی براہ راست شریک ہیں۔ دنیا میں یہودی ایک ایسی قوم ہے جس نے طاقتور ممالک کی معیشت، سیاست اور میڈیا پر قبضہ کیا ہوا ہے اس لیے یہ یہودی اس ملک میں جو چاہتے ہیں ویسے ہی فیصلے کراتے ہیں اسرائیل امریکا کی بات مان رہا ہے نہ اقوام متحدہ کو خاطر میں لا رہا ہے حالانکہ پچھلی دو ہزار سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو عیسائیوں نے ہمیشہ یہودیوں کے ساتھ دشمنی کا مظاہرہ کیا اب یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ ایک زمانے میں یورپ میں یہودیوں پر عیسائی حکومت میں یہ پابندی تھی وہ جب گھر سے باہر نکلیں تو اپنی کمر پر ایک پیٹی باندھیں جس پر یہ لکھا ہو کہ میں یہودی ہوں، اسی طرح یہ بھی تاریخ کا ایک اہم باب ہے کہ یہودیوں کو جب بھی امن سے رہنا نصیب ہوا وہ مسلمانوں کی حکمرانی کے دور میں ہوا۔ لیکن چونکہ قرآنی تعلیمات کے مطابق یہ احسان فراموش قوم ہے اس لیے اس نے مسلمانوں کے احسان والے رویے کو بھلا کر احسان فراموشی کے ساتھ ان سے اپنی دشمنی بھی نکال رہے ہیں۔

دوسرا ادارہ گروہ یا طبقہ جو نظر تو آتا نہیں لیکن اس کے کرتوت سب دیکھتے ہے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے اپنے محلے کا ایک قصہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں وہ صاحب پچھلے برس وفات پا گئے اللہ ان کی مغفرت فرمائے،

آمین۔ ان کا یہ قصہ کسی اور نے سنایا تھا اس لیے دروغ برگردن راوی۔ وہ صاحب اب سے کم و بیش چالیس سال قبل لنڈی کوتل چورنگی سے سردیوں کی رات بارہ بجے کے بعد ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال کی طرف آرہے تھے۔ یہ سڑک عموماً سناٹے میں رہتی ہے اور 40 سال قبل تو اور زیادہ وہ علاقہ سنسان لگتا تھا۔ سردی کی رات، ٹھنڈی ہوائیں ایک اسٹاپ پر ہو کا عالم ہے لیکن ایک بہت خوبصورت لڑکی زرق برق لباس پہنے کھڑی ہے اس نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے ان کو رکنے کا کہا یہ دیکھتے ہوئے سیدھے نکل گئے آگے جا کر خیال آیا کہ بے چاری اتنی رات گئے کھڑی ہے پتا نہیں کہاں جانا ہے پلٹ کر آئے اس نے کہا کہ مجھے چورنگی پر اتار دیجیے گا یہ کہہ کر وہ پیچھے بیٹھ گئی یہ بڑے مسرور انداز میں چل دیے کچھ دور جاکر محسوس ہوا کہ بائیک کچھ بھاری لگ رہی ہے کچھ دیر بعد ایسا لگا کہ بائیک پیچھے سے بہت بھاری ہو رہی ہے کہیں پنکچر تو نہیں ہوگیا یہ سوچ کر پیچھے دیکھا تو گر کر بے ہوش ہو گئے معلوم ہوا کہ جس خوبصورت لڑکی کو انہوں نے بٹھالا تھا اس کی جگہ بہت موٹا، بھدا، بدصورت اور پیلے دانت والا شخص تھا انہیں اسپتال میں ہوش آیا ڈاکٹروں نے بتایا کہ کچھ لوگ لے کر آئے تھے کہ ان کی بائیک شاید سلپ ہوگئی تھی اور یہ بے ہوش پڑے تھے۔

جن جنات کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے اس لیے اس مخلوق پر یقین رکھنا تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر پریوں چڑیلوں اور کوہ قاف وغیرہ کے ذکر اور اس سے جڑے ہوئے دلچسپ اور ڈرائونے واقعات جو ہم بچپن سے اپنے بزرگوں سے سنتے چلے آرہے ہیں ہماری نفسیات کا حصہ بن چکے ہیں۔ جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو مجھے اس کا شعور نہیں تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والد کی کفنائی ڈیڈ باڈی رکھی تھی لوگ چہرہ دیکھ رہے تھے اور میں قریبی ایک پلنگ پر خوشی سے اچھل رہا تھا کہ آج تو جیسے عید کا دن ہے ہر آدمی مجھے پیسے دے رہا ہے اور میں دکان سے چیزیں خرید کر مزے سے کھارہا ہوں۔ پھر کچھ دن بعد جب لوگوں نے یہ بتایا کہ تمہارے ابو مر گئے ہیں اور مرے ہوئے لوگ کبھی واپس نہیں آتے یہ سن کر دل کو بڑی ٹھیس پہنچی اور میں مغموم رہنے لگا میری یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن والدہ نے مجھ سے کہا کہ تمہارے باپ مرے نہیں ہیں بلکہ انہیں جنات اٹھا کر لے گئے ہیں وہ کسی دن واپس آجائیں گے، آج کی اصطلاح میں میں انہیں مسنگ پرسن سمجھ کر ان کی واپسی کا انتظار کرنے لگا پھر دھیرے دھیرے صبر آتا گیا کہ اب والد واپس نہیں آئیں گے۔ میں جو بات بتانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ان جن جنات کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا چاہے یہ کچھ بھی کرتے رہیں اب ان پریوں اور چڑیلوں کے قصے جو بزرگ سنایا کرتے تھے وہ اب ڈراموں اور فلموں کی شکل میں سامنے آنے لگے۔ پچھلی صدی کے نصف سے لے کر اب تک اسی جن جنات پریوں اور چڑیلوں سے ملتی جلتی نئی مخلوق متعار ف ہوئی ہے۔ کوئی اس کو آسمانی مخلوق کہتا ہے کوئی خلائی مخلوق تو کوئی اسے خفیہ طاقتوں کا نام دیتا ہے کوئی مقتدر قوتیں کہتا ہے۔ صحافت کی دنیا میں ان تمام ناموں کو ملا کر ایک نام اسٹیبلشمنٹ کا دیا گیا ہے۔ یہ وہ مخلوق ہے جسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں جس نے بھی اس کو آنکھ دکھائی یا کچھ کہا تو ان میں سے کوئی ملک بدر ہوگیا اور لندن کے ہوٹل میں اس کی مردہ لاش پائی گئی کسی خاتون رہنما کو انڈین ایجنٹ کہا گیا کسی لیڈر نے بات نہیں مانی تو اپنی انا کی قربانی دینے کے بجائے آدھا ملک ہی قربان کردیا جس کو چاہا تختہ اقتدار پر پہنچایا اور جس کو چاہا پھانسی کے تختہ پر

پہنچا دیا قصہ مختصر یہ کہ اس قوت کو بھی کوئی چیلنج کرنے والا نہیں۔

تیسری کمیونٹی جو بے نتھے بیل کی طرح دندناتی پھر رہی ہے وہ کے الیکٹرک ہے جس نے کراچی کے شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں دونوں اس کے سامنے سر جھکائے کھڑی رہتی ہیں کسی کی ہمت نہیں ہے جو اس سے پوچھ سکے کہ تم کراچی کے شہریوں کے کلا کے 55 ارب کیوں واپس نہیں کرتے۔ پیمرا بھی اس کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا ہے میرا ایف بی آر سے مطالبہ ہے کہ وہ پیمرا کے افسران کے اثاثے چیک کریں۔ اگر کے الیکٹرک کو کسی مد میں دو روپے فی یونٹ بڑھانا ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ پیمرا اس کو کہتا ہے کہ تم تین روپے فی یونٹ اضافے کی درخواست دو ہم اس کو دو روپے منظور کریں گے اس طرح عوام بھی خوش اور تم بھی ہم سے خوش اور ہمیں تو تم نے خوش ہی کردیا ہے۔ اب کے الیکٹرک نے ایک اور ظلم شروع کیا ہے کہ اگر ایک فرد بجلی چوری کررہا ہے تو اس چور کو نہیں پکڑیں گے بلکہ اس کے ساتھ سو ایمانداری سے بل ادا کرنے والوں کی بھی بجلی کاٹ دیں گے یا طویل لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتنا ہوگا۔ آج کل لیاقت آباد کے بلاک 5 اور 6 کی کچھ گلیوں قاسم آباد کے کچھ حصوں اور ٹمبر مارکیٹ میں ساڑھے دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جس میں ہمارا گھر بھی شامل ہے جب کہ ہم نے ہمیشہ بلوں کی بروقت ادائیگی کی ہے۔ جب کے الیکٹرک کے ذمے داران سے شکایت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں آپ کی پی ایم ٹی سے بجلی چوری کی شکایات ہیں اس لیے لوڈشیڈنگ بڑھائی گئی یعنی 10 لوگ چوری کریں گے تو 1000 کو سزا ملے گی 100 آدمی چوری کریں گے تو 10000 لوگوں کو سزا ملے گی۔ کے الیکٹرک جو خود چوروں سے ملا ہوا ہے یہ چوروں کو پکڑنے کے بجائے بے گناہ لوگوں کو سزائیں دے رہا ہے۔ میری نیپرا سے صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ بے قصور لوگوں پر کے الیکٹرک کے اس ظلم کو ختم کرائیں میری چیف جسٹس عدالت عالیہ سندھ اور عدالت عظمیٰ سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس مسئلے پر سو موٹو ایکشن لیں۔