توہین ِ عدالت اور اسلامی تعلیمات (حصہ اوّل)

322

ہمارے ملک میں 2012 کا قانونِ توہین ِ عدالت نافذ العمل ہے، اس کی دفعہ 1کی ذیلی دفعہ 2 میں کہا گیا ہے: ’’اس قانون کے تحت جو بھی شخص توہین ِ عدالت کا ارتکاب کرتا ہے، اُسے قید کی سزا دی جائے گی جو زیادہ سے زیادہ چھے ماہ قید ِ محض ہوسکتی ہے یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکتی ہیں‘‘۔ قانونِ توہین ِ عدالت کو تین اقسام میں بیان کیا گیا ہے: (۱) دیوانی توہین: عدالت کی جانب سے صادر کیے گئے کسی حکم، فیصلے یا اقرار کی قصداً تضحیک یا خلاف ورزی کرنا، (۲) فوجداری توہین: انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنایا اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کے لیے جج یا گواہ کو لالچ یا دھمکی وغیرہ دینا، (۳) عدالتی توہین: عدالت کے بارے میں شرمناک یا تضحیک آمیز گفتگو کرنا یا کسی جج کے ذاتی کردار کو تنقید کا نشانہ بنانا۔

اس کی دفعہ 3 میں توہین ِ عدالت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’جو بھی کسی عدالت کے کسی حکم، ہدایت یا عمل کی نافرمانی کرتا ہے یا اُسے نظر انداز کرتا ہے جس کا وہ قانونی طور پر اطاعت کرنے کا پابند ہے یا عدالت کو دیے گئے جائز معاہدے کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کرتا ہے یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے کسی عدالت یا قانونی انتظامیہ کی بے عزتی یا بدنامی کا ارادہ کیا گیا ہو، قانون کے عمل یا کسی عدالتی کارروائی میں مقررہ وقت میں مداخلت یا رکاوٹ ڈالنے یا خلل ڈالنے یا عدالت کے اختیار کو کم کرنے یا جج کو اس کے عہدے کے حوالے سے بدنام کرنے یا عدالت کے حکم یا ضابطے میں خلل ڈالنے کا ارادہ کیا گیا ہو، تو یہ توہین ِ عدالت ہے‘‘، اس کی ذیلی دفعات میں اُن امور کا ذکر کیا گیا ہے جو توہین ِ عدالت سے مستثنیٰ ہیں‘‘۔

ہر وہ کام جو کسی جج یا عدالت کی توہین کا باعث ہو، توہین ِ عدالت ہوگا۔ عدالتیں توہین ِ عدالت پر از خود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کرسکتی ہیں۔ عدالتی توہین جس جج کے خلاف کی گئی ہو، وہ اُس مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتا، بلکہ اُسے چیف جسٹس کے سپرد کرے گا جو اُسے خود سنیں گے یا کسی اور جج کے سپرد کریں گے۔ عدالت توہین ِ عدالت کے مرتکب فرد کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دے سکتی ہے، توہین ِ عدالت کے مقدمے کی کارروائی کھلی عدالت میں کی جاتی ہے اور ان مقدمات کا ریکارڈ دوسرے مقدمات سے الگ رکھا جاتا ہے۔

قانونِ توہین عدالت کی سیکشن 5 کے تحت توہین ِ عدالت کے مرتکب شخص کو چھے مہینے تک قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں، دیوانی توہین ِ عدالت کی صورت میں قید کی سزا نہیں ہوگی، ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔

عام نظامِ عدل کا طریقہ یہ ہے: ماتحت عدالت میں مقدمہ دائر ہوتا ہے، وہیں پر ٹرائل ہوتا ہے، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ٹرائل اور سزا کا آخری مرحلہ ہے، اُس کے بعد عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ اپیلٹ کورٹس ہیں۔ یعنی اگر فریق ِ مقدمہ یہ سمجھتا ہے کہ عدالت سے اُسے انصاف نہیں ملا اور اُسے جو سزا سنائی گئی ہے، وہ منصفانہ نہیں ہے یا اُس کے فریق ِ مخالف کابری کیے جانے کا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے، تو وہ حصولِ انصاف کے لیے مرحلہ وار پہلے ہائی کورٹ اور پھر عدالت عظمیٰ سے رجوع کرتا ہے، یہ دونوں فورم اُس کے پاس حصولِ انصاف کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ مگر چونکہ توہین ِ عدالت میں جج خود مُدّعی ہوتا ہے، اس کیس کو ٹرائل کورٹ کے پاس نہیں بھیجا جاتا، بلکہ ساری کارروائی براہِ راست عدالت میں ہوتی ہے، اس لیے عالی مرتبت جج صاحبان کو اس میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ جج صاحب پر جذبات غالب آجائیں اور وہ مغلوب الغضب ہوکر کوئی نارروا فیصلہ کرلیں۔

ہم اس پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کر رہے ہیں:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور داوٗد وسلیمان کو یاد کیجیے جب وہ ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے، جب کچھ لوگوں کی بکریوں نے رات میںاس کھیت کو چر لیا تھا اور ہم اُن کے فیصلے کو دیکھ رہے تھے، سو ہم نے اس کا فیصلہ سلیمان کو اچھی طرح سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو قوتِ فیصلہ اور علم عطا فرمایا‘‘، (الانبیاء: 78-79) اس کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے: ’’سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: دوآدمی سیدنا داوٗدؑ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر آئے، اُن میں سے ایک کھیت اور دوسرا بکریوں کا مالک تھا، کھیت کے مالک نے کہا: اس شخص نے رات کو اپنی بکریاں میرے کھیت میں چھوڑ دیں اور انہوں نے میرے کھیت کو تاراج کردیا، سیدنا داوٗدؑ نے اس امر کا جائزہ لیا کہ کھیت کا نقصان اور بکریوںکی مالیت برابر ہے، سو انہوں نے ساری بکریاں کھیت کے مالک کو دے دیں۔ پھر یہ مقدمہ سیدنا سلیمانؑ کے پاس گیا، تو آپؑ نے دیکھا: کھیت کا نقصان اور بکریوں کی مالیت برابر ہے، تو آپؑ نے فیصلہ دیا: ایک سال تک کھیت کا مالک بکریوں سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں کا مالک کھیت میں فصل کاشت کرے اور جب فصل پک کر تیار ہوجائے، تو بکریوں کا مالک اپنی بکریوں کو لے جائے اور کھیت کا مالک اپنی فصل کو سنبھال لے‘‘۔ ظاہر ہے دونوں انبیائے کرام کا فیصلہ اُن کے اجتہاد پر مبنی تھا، سیدنا داوٗد کا فیصلہ بھی غلط نہیں تھا، وہ فیصلہ بھی اپنی جگہ ٹھیک تھا، مگر سیدنا سلیمان کا فیصلہ ’’اَحسن‘‘ تھا، اس سے معلوم ہوا کہ فیصلہ حَسن سے اَحسن میں بدلا جاسکتا ہے اور اس میں پہلی عدالت کی توہین نہیں ہوتی۔

حدیث مبارک میں ہے: ’’سیدنا ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں: ہم بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے، آپؐ (غزوۂ حنین) کے مالِ غنیمت کو تقسیم فرمارہے تھے کہ بنو تمیم کے ’’ذُوالْخُوَیْصِرَہ‘‘ نامی شخص نے کہا: یارسول اللہ! انصاف کیجیے! (یعنی اُس نے آپ ؐ کی تقسیم پر اعتراض کیا)، آپؐ نے فرمایا: تم پر افسوس ہے، اگرمیں نے عدل نہ کیا تو (اور) کون عدل کرے گا، (آپؐ نے مکرر فرمایا:) تو ناکام ونامراد ہو، اگر میں نے عدل نہ کیا (تو پھر کون کرے گا)، سیدنا عمرؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے اجازت دیجیے، میں (اس گستاخ کی) گردن اڑادوں، آپؐ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، یہ ایک ایسا گروہ ہے کہ (بظاہر) تم ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے، یہ قرآن پڑھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، (یہ بظاہر بڑے دین دار نظر آئیں گے، لیکن) یہ دین سے اس تیز رفتاری کے ساتھ نکل جائیں گے جیسے تیر اپنے شکار کو زخمی کر کے اس تیزی کے ساتھ نکل جاتا ہے کہ اس پر خون کا کوئی دھبہ بھی نظر نہیں آتا‘‘۔ (بخاری)

رسول اللہ ؐ ریاست ِ مدینہ کے سربراہ بھی تھے اور قاضی القضاۃ بھی تھے، اس خارجی نے آپ کے عدل پر اعتراض کیا، یہ آج کل کی اصطلاح میں توہین ِ عدالت تھی، لیکن آپؐ نے انتہائی ناگواری کے باوجود اُسے اس توہین پر کوئی سزا نہیں دی، بلکہ سیدنا عمر فاروقؓ کو بھی اقدام سے روک دیا۔ بعض صورتوں میں رسول اللہ ؐ نے بظاہر آپ کی توہین کرنے والے کو دینی حکمت کے تحت معاف فرمادیا، یہ آپؐ کا حق تھا، لیکن اسلامی ریاست میں اسلامی عدالت پر توہین ِ رسالت کے مجرم کو سزا دینا لازم ہے۔

اس پر اجماع ہے کہ حاکم پر عدل کرنا واجب ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (۱) ’’اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو‘‘، (النساء: 58) (۲) ’’بے شک اللہ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘، (النحل: 90) (۳) ’’اور جب تم کوئی بات کہو تو انصاف کے ساتھ کہو، (خواہ فریق ِ معاملہ) تمہارے قرابت دار ہوں‘‘، (الانعام: 152) (۴) ’’المائدہ کی آیات: 44،45 اور 47 میں فرمایا: ’’جو اللہ کے نازل کیے ہوئے (احکام) کے موافق فیصلہ نہ کریں تو وہی لوگ کافر ہیں، ظالم ہیں اور فاسق ہیں‘‘۔ مفسرین نے ان تین آیات میں تطبیق یوں کی ہے: (الف) اگر وہ اللہ کے حکم کو ردّ کریں تو کافر ہیں، (ب) سرکشی کی بنا پر نافذ نہ کریں تو ظالم ہیں، (ج) اور اگر عملی کوتاہی کی بنا پر نافذ نہ کریں تو فاسق ہیں۔
(جاری ہے)