اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی آبادی 3 کروڑ نفوس سے تجاوز کر گئی ہے اور اسی تیزی کے ساتھ اس کی آبادی میں اضافہ بھی ہو رہا ہے، کراچی کے عوام کو دیگر درپیش مسائل کے ساتھ ساتھ اہم ترین شاہراہوں پر نصب ناکارہ اور خراب ٹریفک سگنل اور ٹریفک کی روانی کے تسلسل کا ناقص نظام ہے۔ تین کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کے اندر اس وقت صرف 177 ٹریفک سگنل ہیں جن میں سے اکثر ناکارہ، خراب اور ٹریفک پولیس کے اہل کاروں کی ملی بھگت سے جان بوجھ کر خراب کر دیے جاتے ہیں، جو ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی بھرپور مالی آمدن کا ذریعہ بھی بنتے ہیں، ٹریفک پولیس کے اہلکار اکثر شاہراہوں پر چھے چھے سات سات ٹولیوں کی صورت میں ناجائز چالان کرنے میں مصروف ہی نظر آتے ہیں۔ اس وقت ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی میں شاہراہوں پر ٹریفک رش کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں۔ جن میں لب سڑک تجاوزات، فٹ پاتھوں پر گاڑیوں کے غیر قانونی ورکشاپس، سبزی اور پھل فروٹ کے ٹھیلوں کی بھرمار، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، ٹریفک سگنل کا ناکارہ نظام، ناقص منصوبہ بندی، اور سرکاری اداروں کے درمیان باہمی عدم روابط کا بھی سامنا ہے۔
اس وقت پورے کراچی میں صرف 60 کے لگ بھگ ٹریفک سگنل ورکنگ حالت میں ہیں، جس تیزی کے ساتھ شہر قائد کی آبادی بڑھ رہی ہے اسی رفتار کے ساتھ اس شہر کے مسائل میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس شہر کے اندر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید 500 سو سے زائد نئے ٹریفک سگنل کی اشد ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ ’’فری سگنل‘‘ نظام کو مربوط بنانے کی ضرورت ہے، اس وقت روزانہ کی بنیاد پر ایک کروڑ سے زائد گاڑیاں اور موٹر سائیکل صبح سویرے سڑکوں پر نظر آتی ہیں، کراچی کو ٹریفک کے مسائل کے فوری حل کرنے کے لیے مزید اہل کاروں کی بھرتی کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔ جو ٹریفک کے رش اور ٹریفک حادثات کے تدارک کے لیے معاون ثابت ہو سکیں، مگر ٹریفک پولیس اہل کار اپنے فرائض منصبی کو ایمانداری اور فرض شناسی سے پورا کرنے کے بجائے صبح شام اپنی جیبوں کو رشوت سے بھرنے میں مصروف ہی نظر آتے ہیں۔ جس کے تدارک کے لیے آج تک کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ہر ٹریفک سگنل پر آٹھ سے دس پولیس اہلکار موٹر سائیکل اور گاڑیوں کے چالان کرنے میں مگن نظر آتے ہیں۔ اس وقت کراچی میں صرف 3000 ہزار کے لگ بھگ ٹریفک پولیس اہل کارہیں۔ ٹریفک کے چالان کی کل رقم میں سے 25 تا 30 فی صد تک ٹریفک کو کنٹرول کرنے والے اہل کاروں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران تقریباً 3 ارب روپے کے چالان کیے گئے۔ ایسے میں کون ٹریفک پولیس کا اہلکار اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دے گا؟ دراصل ٹریفک پولیس کا بنیادی فرض اور ذمے داری ٹریفک کے نظام کو مربوط کرنے اور دیانتداری سے اپنی ڈیوٹی کو پورا کرنا ہے۔ مگر 80 فی صد سے زائد ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی توجہ اپنی جیبوں کو مال سے بھرنے پر ہوتی ہے اور ہر ٹریفک سگنل آمدن کی بنیاد پر روزانہ کی بنیاد پر فروخت ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر لگے ٹریفک سگنل پر مامور اہل کاروں کی کارکردگی کو چیک کرنے کا کوئی نظام بھی نہیں ہے۔
کراچی ٹریفک پولیس نے ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے کراچی شہر کو 4 زون میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ پولیس افسران اور اہل کاروں کو زون اون اور 2 میں تعیناتی کو اپنی خوش نصیبی ہی تصور کرتے ہیں۔ جبکہ زون 3 اور 4 میں پولیس افسران کی دلچسپی قدرے بہت ہی کمی ہوتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹریفک پولیس کے ادارہ میں ایماندار اور فرض شناس اور اپنے دل کے اندر خوف خدا عملہ کو تعینات کیا جائے۔ جو اپنی جیبوں کو رشوت کی کمائی سے پاک صاف رکھ کر اپنے فرائض کی ادائیگی کریں۔ ان حقائق کو مدنظر رکھ کر صرف یہی کہوں گا کہ
’’شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات‘‘