میں: کئی دنوں سے سلیم احمد مرحوم متواتر یاد آرہے ہیں، خاص طور پر ان کی ایک مشہور غزل کا مصرعہ جس پر ہم نے دورِ طالب علمی میں گرہ لگا کر ایک غزل کہہ ڈالی تھی۔
وہ: اچھا کیا گرہ لگائی ذرا مجھے بھی سنائو
میں: بھلا لگتا ہے دشمن کو شعارِ بزدلی میرا
ـ’’میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کرلشکر بناتا ہوں‘‘
وہ: ماشااللہ گرہ تو بہت خوب لگائی ہے، لیکن تمہیں یہ ہی شعر کیوں یاد آیا، آخر تمہارے ذہن میں چل کیا رہا ہے؟
میں: میرے ذہن میں تونہ جانے کیا کچھ چل رہا ہے مگر آج میں صرف ان کاغذ کے چند ٹکڑوں ہی تک محدود رہنا چاہتا ہوں جن کی مدد سے گزشتہ عام انتخابات میںعوامی رائے پر اس دیدہ دلیری سے نقب لگائی گئی کہ خامہ انگشت بہ دنداں رہ گیا، احتجاج کرنے والوں نے بھی ہفتہ دس دن بعد اپنی اپنی خیمہ گاہوں کی راہ لی، زیادہ غل غپاڑہ مچانے والوں کی ایسی گوشمالی کی گئی کہ وہ آئینے میں خود کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔
وہ: یہ تو وہی بات ہوگئی کہ زبردست مارے اور رونے نہ دے۔ یعنی اب انسان اپنے اوپر ہونے والی نہ انصافی پر شکوہ شکایت بھی نہ کرے؟
میں: بالکل ایسا ہی ہے پاکستان میں عام آدمی سے یہ حق تقریباً چھین لیا گیا ہے، سائبر قوانین، فائر وال وغیرہ جیسے اقدامات کے ذریعے ڈیجیٹل اور نان ڈیجیٹل دہشت گردی کی گردن دبوچنے کے لیے لگائی گئی کئی قدغنیں اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔
وہ: تم کہنا کیا چاہ رہے ہو، کھل کے بات کرو
میں: کھل کے بات کرنے کے لیے سن ساٹھ سے شروع کرتے ہیں جب فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ’’متعلقہ افراد‘‘ نے میرٹ کے اصولوں کو اپنے پائوں تلے روند کر، ہر امتحان اور آزمائش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہلی بار سول سروس میں دراندازی کرکے اپنی مستقل جگہ ہمیشہ کے لیے پکی کرلی۔ پھر اس کے بعد ماضی میں کی گئی بے شمار توسیعی نقشہ بازیاں، من مانیاں، خود غرضیاں اور دراندازیاں ایک بعد ایک نظر سے گزر کر جگر کو چھلنی کرتی چلی گئیں۔ جن میں سے کچھ تاریخ کی ورق گردانی سے پتا چلیں اور بعض کو اپنی آنکھوں سے اخبارات کی چیختی خبروں اور برقی ذرائع ابلاغ کے چلتے پھرتے مناظر دیکھ کر جانا۔
وہ: کیا واقعی ایسا ہوا تھا!
میں: میری بات پر یقین نہیں تو مرحوم مسعود مفتی کی کتاب ’دو مینار‘ پڑھ لو سارا کچا چِٹھا ثبوتوں کے ساتھ سامنے آجائے گا۔ اور اب اس دراندازی کے کم وبیش ساٹھ سال گزرجانے کے بعد ملک میں شاید ہی کوئی کھیت ایسا ہو جہاں ’’متعلقہ افراد‘‘ کے برانڈ کے علاوہ کسی اور کمپنی سے خریدے یا مستعار لیے گئے بیج سے کاشت کاری ممکن ہو اور اگر کبھی جانے انجانے میں بیجوں کا ٹریڈ مارک بدل بھی گیا تو ملت کے وسیع تر مفاد میں ٹریکٹر چلا کر زمین کو پھر سے ہموار کرکے قابل کاشت بنادیا گیا، تاکہ غیرمانوس کھاد اور بیجوں کی وجہ سے زمین کی پیداواری صلاحیت پر منفی اثرات نہ پڑیں۔
وہ: یہ تو تم بہت پرانی بات کررہے ہو، اب تو مجھے حالات بہتری کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں۔
میں: تمہارے منہ میں گھی شکر، مگر کاش ایسا ہوتا۔ میرے دوست موجودہ حالات تک آتے آتے تو اس ایک نظام کے تحت تمام معاملات اتنے ہموار اور مربوط ہوچکے ہیں کہ نام کی جمہوری حکومتیں ’جو حکم میرے آقا‘ کے مصدا ق کارنش بجالانے کے سوا کسی دوسرے طریقہ ٔ تعظیم کے بارے سوچ بھی نہیں سکتیں یعنی اگر کبھی ذائقے بدلنے کے لیے ہاتھ ملانے یا ہوا میں تسلیمات کا انگوٹھا دکھانے کا دل چاہے تو اس خواہش کی تکمیل شاید کبھی نہ ہوسکے۔ معاملہ کسی غیر ملکی دورے کا ہو یا کسی شہر کے بگڑے ہوئے انتظامی حالات کو سدھارنے کا، سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں کو گھر واپسی کا کرایہ دینا ہو یا عدالتوں کو وسیع تر مفاد میں نظریہ ضرورت کا سبق باربار یاد دلانا ہو۔ کسی بھی فیصلہ سازی سے قبل ’’متعلقہ افراد‘‘ اپنے ہل اور ٹریکٹرز سے زمین کو ہموار کرتے ہیں اور اپنی کمپنی کے تیار کردہ بیج ڈال کر چلے جاتے ہیں، پھر اگلے روز ایک بھرپور فوٹو سیشن اور گرجدار خطاب کے ساتھ کچھ بٹھائے گئے یعنی منتخب فیصلہ ساز اس پر پانی ڈال کر نئی کھیتی کا افتتاح کردیتے ہیں۔
وہ: پر تمہیں اس سے کیا پریشانی ہے، چلنے دو جیسے چل رہا ہے، اب تو دراندازی ہوچکی نا۔۔۔۔ اب پچھتائے کیا ہووت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، اور تمہیں وہ کہاوت یاد نہیں۔ اپنا مارے گا تو چھائوں میں بٹھائے گا۔
میں: حضرت چھائوں میں بٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس گھر کو اپنے ہی چراغوں سے اتنی بار آگ لگی ہے کہ ایک بار جل اٹھنے والے دل کے پھپھولے برسوںگزرنے کے بعد بھی مسلسل دہک رہے ہیں۔ اس مختصر تحریر میں دراندازی کی اس تاریخ کو تفصیل سے بیان کرنے کی گنجائش نہیں بس سن اٹھاون کے بعد سے ورق الٹتے جائیں اور دراندازیوں کے ساتھ ساتھ عظیم ترین پسپائی کی داستان پڑھ کر خاموشی سے گزر جائیں۔ ایسے میں اسلام آباد کی نامعلوم خاتون شاعرہ کا یہ شعر بار بار زبان پر آرہا ہے۔
ہمیں نفرت ہے اور نفرت رہے گی ایسے لوگوں سے
کہ جو دستار دے کر سر سلامت مانگ لیتے ہیں
آخر میں مغرب کے ایک فلسفی شاید والٹیئر کا یہ قول بھی سن لو، جو ایک انگریزی فلم ـ’’V for Vendeta‘‘ میں بھی ایک مکالمے کی صورت میں ادا ہوا ہے۔ نہ جانے کیوں قلم اس سے آگے لکھتے لکھتے خود ہی رک گیا ہے:
.To learn who rules over you, simply find out who you are not allowed to criticize