چھبیسویں آئنی ترمیم پٹھان کی سوئی ثابت ہورہی ہے جو جہاں پھنس جائے وہیں پھنس کررہ جاتی ہے۔ حکومت ایک مرتبہ پھر چھبیسویں ترمیم بدست ملک پر حملہ آور ہونے کو ہے۔ ملک کی آزادی، خود مختاری، قیام امن انسانی قدروں کے فروغ، جمہوری آزادیوں اور انصاف کے لیے اپوزیشن کو گرانے اور ججوں پر غرانے کے لیے چھبیسویں ترمیم ازبس ضروری ہے۔ پچھلی مرتبہ ترمیم پیش کرتے ہوئے حکومت پر شادی مرگ کی کیفیت طاری تھی، اس کے بجائے اگر شادی مرغ کی کیفیت طاری ہوتی تو مولانا کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اس مرتبہ مولانا کے حضور کھڑے ہونے ہونے کے بجائے مولانا سے پرے پرے رہ کر پلڑے کے جھکائو کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ پچھلے تجربے میں کمر کی تکلیف کی اور بھی جو صورتیں تھیں ان کا قافیہ بھی تنگ کیا جائے گا۔ غرض آئینی ترامیم کے لیے سیاسی ڈھولک کی تھاپ پر وہ اچھل کود کی جائے گی کہ نمبر پورے کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔
چھبیسویں ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت کاقیام عمل میں لایا جائے گا، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے پاس جو کرشمہ ساز پاور ہے جس سے وہ کبھی گڈ ٹو سی یوکہتے ہوئے محبوب کے گالوں کے ایک تل کے بدلے سمر قندو بخارا قربان کردیتے ہیں، کبھی رقیب حکومت کے سامنے تن کر کھڑے ہوجاتے ہیں، کبھی پارلیمان کی قراردادوںکا دودھ دھونے لگتے ہیں، کبھی آئین کی تشریح کے نام پر فرط عقیدت سے اپنی پسند اور مرضی کے ہا تھوں پر بوسہ دینے لگتے ہیں، کبھی دوسرے اداروں کی حدود میں اس طرح داخل ہوتے جیسے امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا، کبھی حکومتی اور سیاسی معاملات کو زیروزبر کرتے ہوئے کسی کو ہیرو اور کسی کو زیرو کردیتی ہیں، کبھی ایسے فیصلے جاری کرتی ہیں جو کلی طور پر ایک پارٹی کے نقطہ نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور اسے ہی فائدہ پہنچاتے ہیں، کبھی آئینی توازن کو درہم برہم کرنے کے لیے ایسے بچوں کو جنم دیتی ہیں جن میں سے ایک کی شکل بھی آئین سے نہیں ملتی، کبھی ایسے رویوں کا مظاہرہ کرتی ہے کہ انتظامیہ اور مقننہ سے جنگیں لڑنے کا تاثر پیدا ہونے لگتا ہے۔ آمروں اور جابروں کے لیے جو تخت طائوس سجاتی ہے اور سیاسی حکومتوں کو گھر کی خادمہ تصور کرتی ہے۔ حکومت کے نکتہ نظر سے چھبیسویں ترمیم ان تیز رفتاریوں کو بریک لگانے کی کوشش ہے۔
زیادہ دورجانے کی ضرورت نہیں پچھلے چاربرس کی عدالتی طلسم ہوش ربا اٹھا کر دیکھ لیجیے جتنے آئینی معاملات ہیں جو انسانی حقوق کے ساتھ، سیاسی حقوق کے ساتھ، بنیادی حقوق کے ساتھ منسلک ہیں ان میں بیش تر عدالتی فیصلے آئین کی سبز کتاب کے مندرجات کے مقابل لنگڑا کر چلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں جو پسندیدہ جماعتوں اور شخصیات کے مردوں کو زندہ اور رقیب روسیاہ کو دھتکارتے اور درہم برہم کرتے نظر آتے ہیں۔ امیر تیمور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کوئی عمارت پسند نہ آتی تو گرا کر دوبارہ بنانے کا حکم دیتا تھا۔ سابق چیف جسٹس ڈیم والے بابا کا یہی حسن سلوک نوازشریف کے ساتھ تھا۔ انہیں نوازشریف کی نہ جانے کس بات سے چڑ تھی کہ ان کے وزارت عظمیٰ گرانے کے درپے ہوگئے اور کرپشن کی اتنی بڑی اسٹرٹیجک تشریح کرڈالی کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے اور اقامہ ہولڈر ہونے کی وجہ سے ایک جمی جمائی حکومت کو تتر بتر کرکے رکھ دیا۔ 12 جولائی کے مخصوص نشستوں کے فیصلے میں تیرہ رکنی بینچ میں شامل آٹھ مکرم ومحترم جج صاحبان نے آئین وقانون کی باریکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ذاتی خواہش اور پسند کو اس طرح فیصلے کاروپ دیا کہ پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کرائے بغیر، اس کے امیدواروں کو آزاد امیدوار کا حلف اٹھائے جانے کے باوجود، سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوجانے کے باوجود، عدالت کے حضور کوئی عرضی اور فریاد لائے بغیر مخصوص نشستیں ایک بڑے گفٹ پیک کی صورت میں پیش کردی گئی۔ عدل جہانگیری کی عنایت خسروانہ کے لیے بھی سائل کا گھر سے نکل کر زنجیر عدل تک پہنچنا لازم تھا یہاں اس اہتمام کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔
قبائے زرد نگار خزاں پہ سجتی تھی
تبھی تو چال کا انداز خسروانہ تھا
چھبیسویں ترمیم کی صورت حکومت آرزومند ہے کہ اگر کسی کا آئینی معاملات میں حب الوطنی کا جذبہ جاگ اٹھا ہے تو وہ آئینی عدالت کا رخ کرے گا اور اگر دوسرے معاملات میں تکلیف ہے تو وہ دوسری عدالتوں کے سامنے اپنے بڑھے ہوئے شیو میں انگلیاں پھیرے گا۔ چھبیسویں ترمیم کے معاملے میں تین رکاوٹیں ہیں جو حکومت کے ہونٹوں پر پپڑیاں جما سکتی ہیں۔ پہلی رکاوٹ عدالت عظمیٰ کے آٹھ معزز جج صاحبان کا مخصوص نشستوں کے معاملے میں اپنے فیصلے پر اصرار ہے کہ اس پر فوری عمل ہو ورنہ نتائج نکلیں گے۔ اس میزائل پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی طرف سے جواینٹی میزائل داغا گیا ہے اس کے بعد قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کا وجود ہی ختم ہو گیا۔ نئی فہرست کے مطابق تمام 80 ارکان کو سنی اتحاد کونسل کا ظاہر کردیا گیا ہے۔ اسپیکر ایاز صادق نے چیف الیکشن کمیشن کو بھی خط لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری قائم رکھتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں۔ اپنے خط میں انہوں نے لکھا کہ جس رکن پارلیمنٹ نے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں دیا وہ آزاد تصور ہوگا اور وہ آزاد ارکان جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لگتا یہی ہے کہ الیکشن کمیشن اسپیکر صاحب کے خط کی تائید میں فیصلہ دے گا۔ عدالت عظمیٰ اور پارلیمان کے درمیان یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ بہت اہم معاملہ ہے جس سے حکومت کو نمٹنا ہے۔
دوسری رکاوٹ ترمیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ نمبرز کی دستیابی کا حصول ہے۔ قومی اسمبلی میں تو ممکن ہے حکومت کسی نہ کسی طرح مولانا فضل الرحمن کی تائید کے بغیر بھی میجک نمبر کا دریا عبور کرلے گی لیکن سینیٹ کا معاملہ مختلف ہے وہاں سینیٹرز کی تفریق قومی اسمبلی سے مختلف ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور مینگل صاحب کے ووٹ کے علاوہ سینیٹرز کی دوتہائی اکثریت کی برتری حا صل کرنا ترمیم کی منظوری کو کس طرح ممکن بنائے گا یہ بہت بڑا مرحلہ ہے جسے حکومت کو عبور کرنا ہے۔ تیسری رکاوٹ پارلیمان سے باہر ہے جس کا تعلق آٹھ جج صاحبان کے فیصلے کے نتیجے میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان اور خود عدلیہ کے معززجج صاحبا ن کے درمیان پیدا ہونے والی وسیع وعریض خلیج سے ہے۔ جب مستقبل کے چیف جسٹس ڈھائی صفحات کے خط کے ذریعے نشاندہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ موجودہ چیف جسٹس کس طرح ان قوانین کو پامال کررہے ہیں جو پارلیمان نے منظور کیے ہیں۔ کس طرح مستقبل کے چیف جسٹس نے اس کمیٹی میں اپنے اثرر سوخ میں اضافہ کیا ہے جو بینچ بناتی ہے اس کے بعد عدلیہ کے معزز جج صاحبان کے درمیان ہم آہنگی کسی سینہ کوبی سے بھی ممکن نہیں۔ آئینی اور قانونی اداروں کے اجلاس پر اجلاس ملتوی ہورہے ہیں۔ آئندہ آنے والے چیف جسٹس صاحب کے حق میں ایک کمپین چلائی جارہی ہے کہ انہیں ابھی سے نامزد کردیا جائے تاکہ موجودہ چیف جسٹس کی حیثیت ایک لنگڑی بطخ سے زیادہ نہ رہے۔ محترم جج صاحبان نے ایسے مسئلے کھڑے کردیے ہیں جو پیچ در پیچ ہیں اور جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اس ترمیم کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کے گروپ کی طرف سے سخت مزاحمت سامنے آئے گی جس کا سامنا کرنا حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ جب تک عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان یکسو نہیں ہوگے حکومت جو بھی کام کرے گی وہ ہوا میں اڑادیا جائے گا۔ یہ تمام صورتحال اس عمران خان پروجیکٹ کا نتیجہ ہیں جسے لانچ کرتے وقت بہت کچھ تہہ وبالا کردیا گیا تھا اور اب اس پروجیکٹ کو لپیٹتے وقت بھی ایک خوفناک قسم کا شیر ہم سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہے۔