ہمارے آبائی ضلع بے نظیر آباد کے رہائشی آصف علی زرداری جو خیر سے دوسری مرتبہ کامیاب سیاست کی بدولت صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہیں ان کی سیاست پر مجیب الرحمن شامی نے خوب تبصرہ کیا اس کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے۔ بات کسی حد تک درست بھی ہے، آصف علی زرداری مروجہ سیاست کے نباض ہیں وہ مزاج دیکھ کر دوا کرتے ہیں اور عمل بھی انہوں نے رسول اللہؐ کی اس پیش گوئی کو گرہ سے باندھ کر کہ میری امت کا فتنہ مال ہے جس کی پھسلن خطرناک ہے، کوئی بچے گا؟ مال کو سیاست کی بنیاد بنایا اور کامیابی سے استعمال میں لایا اور یوں اقتدار پایا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آصف علی زرداری کی سیاست نے خوب مال سمیٹا اور جو ان کی چھائوں تلے آیا اس کو خوب نوازا، اور پھر آگے بڑھ کر مملکت کے خزانہ سے اپنی اہلیہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام پر اپنے ہمدردوں کے گھرانوں کو سہ ماہی ہزاروں روپے کی امداد کا حق دار بنا کر گرویدہ بنالیا۔ اس خاطر گھروں میں محصور خواتین کو حقدار قرار دے کر عالمی استعمار کو بتایا کہ ہم تمہارے کاز اور کام کے ہیں، پاکستان کی سیاست میں اپنا دم خم اب تک اس بے نظیر اسکیم کے ذریعے برقرار رکھا مگر سندھ کی سیاست اور حکمرانی کو ٹارگٹ رکھا۔ ماضی کے مضبوط حکمران گھرانوں کو ماضی بنادینے کے لیے گولڈ اینڈ گن کے کامیاب فارمولے سے ان کی سیاست کی کمر توڑ دی اور یہ ضروری جانا کہ پی پی پی کے ہمدرد گھرانے کے ہر پڑھے لکھے کو سرکاری نوکری کے اہتمام کی پالیسی اپنائی جائے اور ہر گھر سے ایک فرد کو کم از کم سرکاری نوکر دے کر گرویدہ کیا جائے، اس خاطر مبینہ طور پر یہ ضروری قرار دیا کہ دیکھو پرائی کھیتی کو پانی نہ ملے ہاں میرٹ اور ناگزیر حالت ہوجائے تو بھاری مٹھائی کا مطالبہ رکھ دیا جائے، کمائی کا ایک معقول حصہ پارٹی کا ہوگا۔ دس پرسنٹ کی کہانی ہر افسر نے ازبر کرلی کہ یہ تو دینا ہے اور یوں رشوت کا چلن عام اور بے خوف و خطر ہوگیا اور پارٹی ورکروں نے بھی جانا کہ حکومت ہماری ہے تو ہم جو مرضی میں آئے کریں۔
کار سرکار میں سیاسی مداخلت نے سب کچھ چوپٹ کردیا اور پارٹی عہدیدار کا حکم ہی قانون سمجھا جانے لگا اور تو اور پی پی پی نے ترپ کا پتا سندھ میں خوب کھیلا کہ ہم استحکام پاکستان کی ضمانت ہیں ہم سے لاڈ پیار نہ کیا گیا تو بھوت کھا جائے گا کا ڈراوا مقتدر کے دلوں میں بٹھادیا، بقول پلیجو کہ پی پی پی سندھ حقوق کے نام پر قوم پرستوں کو ایشوز پر میدان میں اتار کر خود فوائد سمیٹ لیتی ہے۔ پی پی پی کی سیاست دو لفظوں میں ’مال کا کمال‘ والی ہے۔ ’مال کا جمال‘ نے ووٹروں کو اس کا گرویدہ کیا ہوا ہے۔ اس پارٹی کے سربراہ نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ نبی کا فرمان سو فی صد درست ہے کہ میری امت کا ایک بڑا حصہ مال کے فتنے کا شکار قرب قیامت ہوگا۔ تو جمہوریت جو اکثریت کو حق حکمرانی دیتی ہے اس بڑے حصے کو مال سے شکار کرکے حکمرانی کا حق حاصل کرلیا ہے۔ دوسروں کو یہ بات دیر سے سمجھ میں آئی کہ چلمن کے پیچھے کیا ہے، جب تک سیاست کے پل سے خوب پانی بہہ گیا اور بڑے بڑے گھرانوں اور حکمرانوں کی سیاست کو بہا لے گیا۔ آصف علی زرداری نے جانا اور ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کی درست تعبیر کی کہ یہ پیغام ہے مال کے فتنہ میں مبتلا افراد کی ہوس زر، ضرورت کو پورا کرکے ہی ملک میں کامیاب سیاست کی جاسکتی ہے پھر مال کے لیے لوٹ کھسوٹ کی قیامت ڈھائی جاسکتی ہے سو، ہر سو اب سکہ پی پی پی کا خصوصی سندھ میں اقتدار سازوں کو پی پی پی کا سازندہ سننے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔