سیاست کی باسی کڑھی میں اُبال ہرگز ہرگز نہیں چاہیے، سیاست کی باسی کڑھی میں اُبال آنا، پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں، ہمارے ملک میں ہفتہ ہفتہ کی سیاست چلتی ہے، ایک ہفتہ گرم اور دوسرا ہفتہ نرم، تاہم سیاسی میدان میں سیاست دانوں کی ایک دوسرے جگت بازی چلتی رہتی ہے، ایسی کامیڈی کہ الحمراء کے کامیڈین بھی سیاست دانوں سے ہی سیکھنا شروع ہوگئے ہیں، کچھ ہمارے ٹاک شوز ایسے ہیں کہ خدا کی پناہ، ایسے ایسے اینکرز ہیں کہ رات آٹھ بجے کے بعد گیارہ بجے تک ہر کوئی اپنا جھرلو پھیرتا ہے اور اپنی ڈفلی بجاتا ہے، یوں اپنے ٹاک شوز کا پیٹ بھرتے ہیں، یہ پروگرام کیا ہیں؟ گویا رہبر ہی قوم کو گھیرنے بیٹھے ہوتے ہیں کبھی ان کی باتوں پر رونا آتا ہے اور کبھی بیٹھے بیٹھے ہنسی نکل آتی ہے، سیاست دانوں کی ایک دوسرے کو جگت بازی آج کی نہیں، ایوب خان کے زمانے کی سوغات ہے، ایوب خان سے پہلے کا زمانہ دیکھ لیں تو ہمیں گورنر جنرل غلام محمد ملتے ہیں، کیا منظر تھا، منہ سے رال پہ رال بہہ رہی ہے اور وہ اقتدار کے مزے لے رہے ہیں، حکم دے رہے ہیں اور فیصلے سنا رہے ہیں، قوم کا غم تو انہیں کھائے جارہا تھا، ایواب خان کے بعد یحییٰ خان آئے اور ہم آدھا ملک ہی گنوا بیٹھے، ان کے بعد بھٹو صاحب آئے اور ہم سیاست میں سنجیدگی بھول گئے، لغویات جڑی بوٹی کی طرح اُگنا شروع ہوئیں۔
یہ تو ماضی کے قصے ہیں آج بھی صورت حال مختلف نہیں، پاکستان کی سیاست میں کامیڈی کے اس قدر وسیع مواقع موجود ہیں کہ جگت بازی کے پروگرام ہی زیادہ ریٹنگ لے رہے ہیں، سیاست دانوں کے جلسے ہوں یا دھرنے، جلوس ہوں یا مظاہرے، ٹاک شوز ہوں یا مناظرے، تقریر اسمبلی میں یا باہر، عوام ووٹرز کے روپ میں، قاری کے روپ میں اور ناظرین کے روپ میں اور مجمع کے روپ میں اس آگ میں ایندھن کی طرح جل رہے ہیں، یہی عوام جب کسی بھی حکمران یا سیاست دان کا پروگرام اٹینڈ کرکے گھر پہنچتے ہیں تو گیس، بجلی کے بھاری بل ان کا استقبال کرتے ہیں، بس پھر کیا ہے؟ بلوں کی ادائیگی کی سر درد شروع ہوجاتی ہے، لیکن بل بھی آرہے ہیں، بجلی سستی کرنے کے مطالبے اور اقدامات کے اعلان بھی ہورہے ہیں اس کے باوجود کہیں بھی عوام کو ریلیف نہیں مل رہا ہے یہ تو لکڑی کی طرح جل جل کو اب کوئلہ بن رہے ہیں، بلکہ کوئلے سے زیادہ سیاہ۔ ملک میں جس جس پارٹی کی وفاق میں حکومت رہی ہے اور اب بھی ہے یہ سب حکمران جماعتیں مجرم ہیں، انہی کی وجہ سے بجلی، گیس کے نرخ کم نہیں ہورہے بلکہ فنی لحاظ سے ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں کہ ریلیف کے بجائے جیب پر بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے، سیاسی اسٹیج پر سیاسی کامیڈین ہر روز مل جاتے ہیں جو ہر روز بھاشن دیتے ہیں کہ حکومت بجلی کے نرخ کم رہی ہے، یہ بھاشن سن سن کر کان پک گئے ہیں، بھٹو صاحب سے لے کر آج تک حکومت کسی کی بھی ہو، کابینہ میں کامیڈین زیادہ وزیر کم دکھائی دیتے ہیں، یہ ہر لمحے سیاستدان کوئی نہ کوئی نئی درفتنی چھوڑ کر مجمع اکٹھا کرتے رہتے ہیں اور ڈگڈگی بجتی رہتی ہے پرنٹ ذرائع ابلاغ بھی کسی سے کم نہیں، کیسی کیسی خبریں، یو ٹیوبرز تو ہر پندرہ منٹ کے بعد بریکنگ نیوز دے رہے ہوتے ہیں، کوئی ان میں عسکری مزاج کا حامل ہے اور کوئی عمرانی، کوئی نوازی اور کوئی علاقائی مسئلہ لے کر بیٹھ جاتا ہے۔
’’حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘
ملکی سیاست میں ایک تلخ موڑ نائن الیون کے بعد آیا تھا، اس کے بعد سے لے کر صدر ہوں یا وزیر اعظم، سب نے کئی کئی سو بار یہ دعویٰ کیا کہ آخری دہشت گرد کو ٹھکانے لگانے تک آپریشن جاری رہے گا، ملک میں کوئی ایک بھی شہری ایسا نہیں جو اس ملک میں امن نہ چاہتا ہو، سب امن چاہتے ہیں، ترقی کے ہامی ہیں، خوشحالی کے متمنی ہیں، لیکن حکمران ہیں کہ ایک دوسرے کے گریبان پکڑے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کو دہشت گردی بڑھانے کا الزام دے رہا ہے، ماضی میں بھی متعدد آپریشن ہوئے آج بھی آپریشن جاری ہیں مگر مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے ہیں، وجہ کیا ہے؟ دہشت گرد پکڑے نہیں جارہے۔ نو مئی کے ملزم ضمانتوں پر باہر آرہے ہیں اور بری ہوتے جارہے ہیں، حکومت خاموش ہے، یہ بھی کہہ رہی ہے کہ نو مئی ایک سانحہ اور المیہ تھا، یہ واقعی المیہ تھا کہ شہداء کی یادگاریں تباہ کی گئیں، اب کہہ رہے ہیں کہ قانون سازی کی جائے گی۔ قانون سازی سے یاد آیا اس ملک میں تو گدھے کا گوشت بھی فروخت ہوچکا ہے، کچھوے مچھلی کے طور پر بک رہے ہیں، قانون کہاں ہے؟ گدھے کا گوشت جب فروخت ہونا شروع ہوا تو اس کی روک تھام کے لیے تب بھی کوئی قانون نہیں اور آج بھی قانون نہیں ہے۔ قانون صرف یہ ہے کہ مضر صحت گوشت فروخت کرنا جرم ہے، یہ سب کچھ حکومتوں کے مزاحیہ پروگراموں کے ہی سلسلے ہیں، یہ بند ہوتے نظر آرہے ہیں اور نہ عوام ایندھن بننے سے بچتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
یہ اس لیے کہ اس وقت بھی بیانات کی دوڑ لگی ہوئی ہے، وفاق بمقابلہ کے پی کے اور پنجاب بمقابلہ کے پی کے، کانٹے دار مقابلہ جاری ہے۔ بیانات کی اس نورا کشتی میں ایک بار پھر عوام ایندھن کے طور جلائے جارہے ہیں سیاسی کامیڈی کی مارکیٹ پھر بھی کبھی ٹھنڈی نہیں پڑنے والی، ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے سیاست دان کامیڈی چھوڑ دیں اور کامیڈین سیاست چھوڑ دیں۔