لبنانی حزب اللہ اسرائیل کے خلاف کتنی طاقت ور ہے؟

239

ایک سال سے جاری جھڑپوں کے بعد اسرائیل اور لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کے درمیان شدید لڑائی شروع ہو گئی ہے جس کے باعث باقاعدہ جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اسرائیل کو لبنان میں حزب اللہ کی صورت میں غزہ میں حماس کے مقابلے میں بہت طاقت ور حریف کا سامنا ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کو خطے کی مضبوط ترین پیرا ملٹری فورس سمجھا جاتا ہے۔ حزب اللہ کے پاس جدید ہتھیار ہیں جس میں ہدف کو نشانہ بنانے والے راکٹ اور ڈرون بھی شامل ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے تمام حصوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔اسرائیل کے ساتھ حالیہ مسلح جھڑپوں میں حزب اللہ نے بتدریج نئے ہتھیار اور جدید گولہ بارود کا استعمال کیا ہے۔حالیہ تنازع میں حزب اللہ نے ابتدا میں ٹینک شکن میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے تاہم بعد میں اس نے دھماکاخیز مواد لے جانے والے ڈرون اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل بھی پہلی بار استعمال کیے ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون مقامی سطح پر تیار کیے گئے ہیں اور ان کے پاس اس کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اسرائیل کے اندازوں کے مطابق حزب اللہ کے پاس ڈیڑھ لاکھ راکٹ اور میزائل ہیں۔ حزب اللہ کو گزشتہ ہفتے اس وقت بڑا دھچکا لگا تھا جب لبنان میں ہزاروں کمیونی کیشن ڈیوائسز اچانک ایک ساتھ پھٹنے کے واقعات پیش آئے تھے۔ یہ دھماکے لبنان کے مختلف علاقوں میں ہوئے تھے جس میں 39 افراد ہلاک اور 3ہزار سے زائد شہری زخمی ہو گئے تھے۔ حزب اللہ ان حملوں کے لیے اسرائیل کو ذمے دار قرار دیتی ہے۔ حزب اللہ کے مسلح تنازعات کا ماضی دیکھا جائے تو اس نے 2006 ء میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگ میں اپنی بھرپور عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ حزب اللہ نے اسرائیل سے 2فوجیوں کو اغوا اور 8کو قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کو جنم دیا جو 5ہفتوں تک جاری رہی تھی۔ اس تنازع کے دوران حزب اللہ نے اسرائیل کی طرف ہزاروں راکٹ داغے جس پر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی۔ اس لڑائی میں لبنان میں 1200 افراد جان سے گئے جب کہ 158 اسرائیلی ہلاک ہوئے جس میں زیادہ تر فوجی تھے۔ حزب اللہ کی عسکری طاقت اس وقت بڑھی جب اس کے جنگجوؤں کو شام میں تعینات کیا گیا۔ شام خطے میں ایران کا ایک اور اتحادی ہے اور حزب اللہ کی تعیناتی کا مقصد شامی صدر بشار الاسد کی باغیوں کے خلاف لڑائی میں مدد کرنا تھا، یہ باغی زیادہ تر سنی مسلمان ہیں۔ حسن نصر اللہ نے 2021 ء میں کہا تھا کہ تنظیم میں ایک لاکھ جنگجو ہیں۔

خطے میں حزب اللہ کے اتحادی
ایران کی جانب سے حزب اللہ کو ہتھیار اور رقم دی جاتی ہے۔ امریکا کا اندازہ ہے کہ ایران نے حالیہ برسوں میں اپنے سالانہ کروڑوں ڈالر اس کے لیے مختص کیے ہیں۔ حزب اللہ کا غزہ میں حماس اور ایک اور فلسطینی عسکری گروہ اسلامک جہاد سے گہرا تعلق ہے۔ حزب اللہ کا دعویٰ ہے کہ وہ 7اکتوبر کوفلسطینی مزاحمت کی قیادت کے ساتھ براہ راست رابطے میں تھی۔ یہ وہی دن ہے جب حماس کے جنگجوؤں نے غزہ سے اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملہ کیا تھا۔ اس حملے کے بعد شروع ہونے والی اسرائیل حماس جنگ میں اسرائیل میں 1200 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور 250 شہریوں کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر جوابی بمباری میں 41 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں نصف سے زائد بچے اور خواتین شامل ہیں جب کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس تعداد میں عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔ 7اکتوبر کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیل میں سرحد پار سے کئی بار فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ حماس اور اسلامی جہاد جو لبنان میں موجود ہیں، انہوں نے بھی پہلی بار لبنان سے اسرائیل پر حملہ کیا ہے۔ ان حملوں میں 10 اکتوبر کو اسلامی جہاد کی جانب سے سرحد پار سے اسرائیل میں دراندازی بھی شامل ہے۔حزب اللہ مشرقِ وسطیٰ میں دیگر ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کے لیے حمایت اور تحریک کا ذریعہ رہی ہے۔ اس نے عراق میں مسلح گروہوں کو تربیت دی اور وہاں لڑائی میں بھی حصہ لیا۔سعودی عرب کا کہنا ہے حزب اللہ یمن میں ایران کے اتحادی حوثیوں کی حمایت میں بھی لڑی ہے۔ البتہ حزب اللہ اس کی تردید کرتی ہے۔

لبنان میں حزب اللہ کا کردار
1975 ء سے 1990 ء تک لبنان میں خانہ جنگی جاری رہی، اسی اثنا میں 1982 ء میں ایران کی سپاہ پاسدارانِ انقلاب نے حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ایران کی ان کوششوں کا حصہ تھا کہ وہ 1979 ء کے انقلاب کو خطے میں پھیلائے اور 1982 میں لبنان پر اسرائیل کے حملے کے بعد اسرائیلی افواج کا مقابلہ کرے۔ حزب اللہ نے ایرانی نظریات کو اپنایا اور لبنانیوں کو اپنی تنظیم میں بھرتی کیا۔ وقت کے ساتھ حزب اللہ ایک گروپ سے ایک بڑی مسلح قوت بن گئی جس کا لبنان کی ریاست پر بڑا اثر و رسوخ ہے۔حزب اللہ کا اثر و رسوخ اس کے جدید ہتھیاروں اور لبنان کے کئی اہل تشیع کمیونٹی کی حمایت سے ہے جو کہتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کا اسرائیل سے دفاع کرتی ہے۔ لبنان میں خانہ جنگی کے بعد جہاں دیگر گروہ غیر مسلح ہوئے وہیں حزب اللہ نے اپنے ہتھیار اسرائیلی فورسز کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کیے اور برسوں کی گوریلا جنگ کے بعد 2000 ء میں اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔البتہ لبنان کی جماعتیں حزب اللہ کی مخالفت کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس گروپ نے ریاست کو کمزور کیا ہے۔ تنظیم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے لبنان کو یک طرفہ طور پر مسلح تنازعات میں گھسیٹا ہے۔ حزب اللہ 2005 ء میں شام کی جانب سے لبنان سے فورسز کے انخلا کے بعد واضح طور پر لبنان کی سیاست میں ابھر کر سامنے آئی۔ 2005 ء میں شام کے سابق وزیرِ اعظم رفیق الحریری کو قتل کر دیا گیا تھا، انہیں ملک میں سعودی اثر و رسوخ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس معاملے پر اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ ایک عدالت نے حزب اللہ کے 3ارکان کو ان کی غیر حاضری میں قتل کے الزام میں سزا سنائی۔ البتہ حزب اللہ نے اپنے کسی بھی کردار سے انکار کرتے ہوئے عدالت کو دشمنوں کا آلہ کار قرار دیا۔ 2008 ء میں حزب اللہ اور اس کے لبنانی سیاسی مخالفین کے درمیان اقتدار کی کشمکش ایک مختصر تنازع میں تبدیل ہو گئی۔ حکومت کی جانب سے تنظیم کے عسکری مواصلاتی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے عزم کے بعد حزب اللہ کے جنگجوؤں نے بیروت کے کچھ حصوں پر قبضہ کرلیا۔ بعد میں 2016 ء میں حزب اللہ کے اتحادی عیسائی سیاست دان میشال عون لبنان کے صدر بن گئے۔ واضح رہے کہ لبنان کے فرقہ وارانہ سیاسی نظام میں صدارت ایک عیسائی کے پاس ہوتی ہے۔ 2 سال بعد یعنی 2018 ء میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں نے پارلیمان میں اکثریت حاصل کر لی۔ لیکن 2022 ء میں یہ اکثریت ختم ہو گئی تاہم گروپ نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال جاری رکھا۔ 2020 ء میں بیروت کی بندرگاہ پر خوف ناک دھماکے سے دارالحکومت لرز اٹھا۔ اس معاملے پر ایک جج کی جانب سے تحقیقات کے دوران حزب اللہ کے اتحادیوں سے سوالات کیے گئے جس پر تنظیم نے جج کے خلاف ایک مہم چلائی۔ اس معاملے نے 2021 ء میں بیروت میں مہلک تصادم کو جنم دیا۔گزشتہ برس اکتوبر میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ میں جاری جنگ کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیل پھر ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔

حسن نصر اللہ کون ہیں؟
حسن نصر اللہ کو حزب اللہ کی شناخت سمجھا جاتا ہے۔ وہ 1960 ء میں بیروت کے ایک پس ماندہ قصبے برج حمود کے شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ بعد میں ان کا خاندان جنوبی لبنان منتقل ہو گیا۔ نصر اللہ نے دینی تعلیم حاصل کی اور عمل تحریک کا حصہ بن گئے جو حزب اللہ سے قبل اہل تشیع کی سیاسی اور مسلح تنظیم تھی۔ اسرائیل کی جانب سے 1992 ء میں حزب اللہ کے سربراہ کے قتل کے بعد حسن نصر اللہ اس کے سربراہ بنے۔ 2006 ء کی جنگ میں اسرائیل کے جنوبی لبنان سے انخلا کے بعد حسن نصراللہ بہت مقبول ہوئے اور لبنان سے باہر شام اور کئی عرب ممالک میں ان کی تصاویر بھی فروخت ہونے لگیں۔ تاہم انہیں بہت سے لبنانی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ ان کے ملک کو ایران جیسا بنانا چاہتے ہیں۔ حسن نصر اللہ کو ایک عملیت پسند رہنما بھی تصور کیا جاتا ہے جو وقت کے ساتھ سیاسی سمجھوتوں کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں۔ وہ اسرائیل کی جانب سے قتل کیے جانے کے خدشے کی بنا پر گزشتہ کئی برسوں سے روپوش ہیں اور نامعلوم مقامات سے تقاریر کرتے ہیں۔

حزب اللہ پر مغربی اہداف کو نشانہ بنانے کا الزام
لبنان کے سیکورٹی حکام اور مغربی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ حزب اللہ سے منسلک گروہوں نے 1980 ء کی دہائی میں مغربی سفارت خانوں اور اہداف پر خودکش حملے کیے اور مغربی باشندوں کو اغوا کیا۔ ان میں سے ایک گروپ اسلامک جہاد جس کا فلسطینی تنظیم سے تعلق نہیں ہے، کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس کی قیادت حزب اللہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر امام مغنیہ کر رہے تھے۔ امام مغنیہ 2008 ء میں شام میں ایک کار بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ 1983 ء میں بیروت میں امریکی بحریہ کے ہیڈکوارٹرز کو خودکش دھماکے سے تباہ کر دیا گیا تھا۔ دھماکے میں 241 سروس مین ہلاک ہوئے تھے۔ اسی سال امریکی سفارت خانے پر بھی ایک خودکش حملہ ہوا۔ امریکا نے اس کا ذمے دار حزب اللہ کو ٹھہرایا تھا۔ 1983 ء میں ہی بیروت میں فرانسیسی بیرکس کو بھی ایک خودکش حملہ آور نے نشانہ بنایا جس میں 58 فرانسیسی چھاتا بردار مارے گئے۔ان حملوں اور یرغمالوں کا حوالہ دیتے ہوئے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے 2022 ء میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ یہ سب چھوٹے گروہوں کی جانب سے کیا گیا جن کا حزب اللہ سے تعلق نہیں تھا۔ امریکا سمیت کئی مغربی ممالک حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ سعودی عرب سمیت کئی امریکی اتحادی خلیجی ریاستیں بھی حزب اللہ کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں۔ یورپی یونین حزب اللہ کے عسکری ونگ کو دہشت گرد گروپ قرار دیتی ہے لیکن اس کے سیاسی ونگ کو نہیں۔