جاپان: فضائی حدود کی خلاف ورزیوں پر تشویش

456

رواں ماہ ستمبر میں جاپان نے روس اور چین کی جانب سے اپنی فضائی حدود اور سمندری علاقوں میں ہونے والی فوجی سرگرمیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 23 ستمبر کے روز جاپانی وزیر دفاع مینورْو کیہارا نے ان واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا، جن میں روس اور چین کے فوجی طیارے اور بحری جہاز جاپان کے قریب دیکھے گئے۔ بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق یہ بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں نہ صرف جاپان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ اس سے خطے میں پہلے سے موجود تاریخی تنازعات، خصوصاً روس کے ساتھ سخالین اور کوریل جزائر جیسے امور، دوبارہ زیر بحث آ رہے ہیں جبکہ اس تناؤ کی بنا پر جنوب مشرقی ایشیا پر بھی اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس سے علاقائی استحکام کے لیے بھی خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔

کیہارا کے بیان کی روشنی میں اس تشویش کی بنیادی وجہ حالیہ ہفتوں میں چین اور روس کی جانب سے کی جانے والی والی کئی فضائی اور سمندری خلاف ورزیاں ہیں۔ جس کے لیے، ایک روسی فوجی گشتی طیارے کی 23 ستمبر کے روز ہوکائیدو کے شمال میں جاپانی سمندر کے اوپر تین بار پرواز کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے، جس کے جواب میں جاپانی فضائی دفاعی فورس نے پہلی بار ایک سگنل فلیئر فائر کیا تاکہ اس خلاف ورزی کو روکا جا سکے۔ مزید برآں، جاپان نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اگست کے آخر میں ایک چینی فوجی جاسوس طیارے نے جاپانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے، جو ناگاساکی پریفیکچر کے قریب مشرقی چین کے سمندر میں واقع ہے۔

جاپانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی دوران، آٹھ چینی اور روسی بحری جہازوں کو بھی ایک ساتھ سویا آبنائے سے گزرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، جو ہوکائیدو اور سخالین جزائر کے درمیان واقع ہے (واضح رہے کہ یہ جزائر جاپان اور روس کے درمیان تاریخی طور پر متنازع علاقے تصور کیے جاتے ہیں جن پر دونوں ممالک کا دعویٰ ہے)۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان تمام واقعات نے جاپان میں سیکورٹی خطرات کے حوالے سے تشویش کو بڑھا دیا ہے جو اس بات کی علامت ہیں کہ چین اور روس مل کر جاپان کے ارد گرد فوجی دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں شمال مشرقی ایشیا میں جنگ کے مہیب خطرات عالمی امن کے لیے بھی خطرے کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ جاپان اور روس کے تعلقات جو پہلے ہی یوکرین کی جنگ سے اٹھتے دھوئیں سے گدلائے نظر آتے ہیں، اس نئی صورتحال میں مزید پیچیدہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔

آئیں اب ایک نظر جاپان اور روس کے درمیان موجود تاریخی تنازعات پر بھی ڈال لیتے ہیں جاپان اور روس کے درمیان فوجی تناؤ کو تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو سخالین اور کوریل جزائر کا مسئلہ سر فہرست نظر آتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ان جزائر کے حوالے سے اختلافات 19 ویں صدی سے چلے آ رہے ہیں اور آج بھی دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان رکاوٹ ہیں۔ سخالین، جاپان کے ہوکائیدو کے شمال میں واقع ہے، جس سے ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ منسلک ہے۔ 1855 کے شیمودا معاہدے کے تحت یہ جزیرہ جاپان اور روس کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا۔ تاہم، 1875 میں سینٹ پیٹرز برگ کے معاہدے کے تحت روس کو پورے سخالین پر کنٹرول مل گیا، جبکہ جاپان کا کوریل جزائر پر کنٹرول تسلیم کیا گیا۔ 1904-1905 کی روس۔ جاپان جنگ کے بعد جاپان نے سخالین کے جنوبی حصے پر قبضہ کر لیا، لیکن دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی شکست کے بعد سوویت یونین نے ان تمام جزائر پر قبضہ کر کے جاپانی آبادی کو جنوبی سخالین سے بے دخل کر دیا، جس کے بعد سے آج تک، جاپان جنوبی سخالین اور کچھ جنوبی کوریل جزائر پر روس کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتا، جو دونوں ممالک کے درمیان وجہ تنازع ہے۔

کوریل جزائر کا تنازع بھی جاپان اور روس کے درمیان ایک اہم مسئلہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین نے جنوبی کوریل پر قبضہ کر لیا، لیکن جاپان کا آج بھی چار جزائر، اتروپ، کناشیری، شکوتان اور حبومائی پر دعویٰ ہے۔ یہی وہ تنازع ہے جو دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے بعد سے ایک امن معاہدے پر دستخط کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے اور جب بھی فوجی کشیدگی بڑھتی ہے، یہ تنازع دوبارہ سامنے آتا ہے۔ جاپان کے مطابق حالیہ فضائی حدود کی خلاف ورزیاں اور بحری سرگرمیاں شمال مشرقی ایشیا میں ایک وسیع جغرافیائی اور فوجی اتحاد کی علامت ہیں۔ روس اور چین، جو مغربی ممالک کی جانب سے بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا کر رہے ہیں، اب ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور مل کر فوجی مشقیں کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف جاپان کی سیکورٹی کو چیلنج کرنا ہے بلکہ امریکی فوجی موجودگی اور اس کے اتحادیوں کو بھی ایک پیغام دینا ہے کہ وہ خطے میں اپنی طاقت کو بڑھا رہے ہیں۔ تجزیہ نگار اس صورتحال کو کواڈ جیسے معاہدوں کا رد عمل بھی کہتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت ساؤتھ چائنا سی میں چین کے سامنے تزویراتی مقاصد کے ساتھ ایک معاہدے سے منسلک ہیں۔

جاپانی بیانیے کے مطابق، یہ واقعات محض معمولی خلاف ورزیاں نہیں ہیں بلکہ اس بات کا اشارہ ہیں کہ اس کے پڑوسی فوجی دباؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کی روشنی میں جاپان کے لیے، امریکا کے ساتھ اپنے سیکورٹی اتحاد کو مزید مضبوط کرنا وجہ جواز بتایا جاتا ہے۔ جاپان جو اپنی فوجی تیاریوں میں اضافہ کر رہا ہے کی جانب سے روسی طیارے کے خلاف سگنل فلیئر کا استعمال اس کی طرف سے اپنی خودمختاری کا دفاع کرنے کے عزم کا اظہار ہے، لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں فوجی کشیدگی کتنی نازک اور خطرناک ہو چکی ہے۔

خطے کی موجودہ صورتحال نہ صرف جاپان اور روس کے تعلقات پر اثر انداز ہو رہی ہے بلکہ پورے جنوب مشرقی ایشیا کے لیے بھی اہم ہیں۔ مغربی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق چین کی فوجی سرگرمیوں کے حوالے سے پہلے ہی وہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک، جن کے چین کے ساتھ علاقائی تنازعات ہیں سفارتی الجھنوں کا اظہار کرتے رہے ہیں، ایسی صورتحال میں اگر چین اور روس کا فوجی تعاون جاری رہا تو پورے خطے میں فوجی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک خود کو ایک مشکل صورتحال میں پائیں گے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے فوجی تعاون سے جنوب مشرقی ایشیا میں سیکورٹی کے مسائل پیچیدہ ہو جائیں گے۔ صورت حال میں مزید پیچیدگی اس لیے بھی پیدا ہوگی کہ کئی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اپنی اقتصادی ترقی کے لیے چین پر انحصار کرتے ہیں جبکہ ان کی سلامتی امریکی اتحادیوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جن میں جاپان بھی شامل ہے۔ ایسی صورتحال میں شمال مشرقی ایشیا میں طاقت کا کوئی بھی عدم توازن پورے خطے میں عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کو اپنے دفاعی اور اقتصادی تعلقات پر نظر ثانی کرنی پڑ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر چین کو روس کی حمایت حاصل رہی تو اس سے ساؤتھ چائنا سی میں بھی تناؤ بڑھ سکتا ہے، جہاں کئی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ چین کے علاقائی تنازعات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، جیسے جیسے جاپان اور امریکا اپنی دفاعی شراکت داری کو مزید مضبوط کریں گے، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ بھی کسی ایک فریق کا ساتھ دیں، جس سے خطے میں تقسیم مزید گہری ہو سکتی ہے۔ امریکا نواز حلقے چین اور روس کی جانب سے فوجی سرگرمیوں میں اضافے اور چین اور روس کے بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کو جاپان کی سلامتی کے لیے براہِ راست چیلنج کے طور پر تعبیر کررہے ہیں۔ بہر حال تبدیل ہوتا ہوا یہ جغرافیائی منظرنامہ جنوب مشرقی ایشیا پر اہم اثرات مرتب کر رہا ہے، جہاں خطے کے ممالک اپنی سلامتی اور اقتصادی تعلقات کو دوبارہ سے دیکھنے پر مجبور ہوں گے اور آنے والے برسوں میں اس فوجی سرگرمی کے بڑھنے کے امکانات خطے کو مزید نازک اور عدم استحکام کا مرکز بنا سکتے ہیں۔