ماہ اکتوبر کے آغاز میں معروف مذہبی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک حکومت پاکستان کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کریں گے اور مختلف شہروں میں عوامی اجتماعات سے بھی خطاب کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب 5، 6 اکتوبر کراچی میں 12، 13 اکتوبر لاہور میں اور 19، 20 اکتوبر اسلام آباد میں دو دو دن لیکچر دیں گے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا 1991ء کے بعد 2024ء میں پہلا دورہ ہے۔ انہوں نے 2020ء میں بھی پاکستان کے دورے کی منصوبہ بندی کی تھی مگر کورونا وبا کے باعث نہ آ سکے تھے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا مکمل نام ذاکر عبدالکریم نائیک ہے جو ایک بھارتی اسلامک اسکالر، مقرر، اور ایک اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن کے بانی ہیں۔ دنیا میں تقابل ادیان اور مناظروں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں تاہم 1991ء سے اپنی مکمل توجہ اسلام کی تبلیغ کی جانب دینی شروع کر دی۔ ڈاکٹر صاحب مسیحت اور ہندو مت کے مذہبی رہنماؤں سے مناظروں کے لیے مشہور ہیں۔ اب تک بہت سے لوگ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں اسلام قبول کر چکے ہیں۔ یہ چیز ہندو ازم بھارتی حکومت کو برداشت نہ ہوئی اور ان پر کئی الزامات لگائے۔ بلکہ دہشت گردی جیسے جھوٹے الزامات بھی لگائے مگر آنے والے وقت میں ایک بھی الزام ثابت نہ ہو سکا۔ جب بھارت کی سرزمین ڈاکٹر صاحب پر بہت زیادہ تنگ کر دی گئی تو آٹھ سال قبل ڈاکٹر صاحب ہجرت کر کے سعودی عرب اور پھر ملائشیا چلے گئے۔ ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے انہیں شہریت دے کر مستقل رہائش کی اجازت دے دی مگر مودی حکومت کہاں چین سے بیٹھنے والی تھی اور ڈاکٹر صاحب کی حوالگی کے لیے مطالبہ کیا۔ وزیراعظم مہاتیر محمد نے پامردی دکھاتے ہوئے مودی انتظامیہ کے مطالبے کو مسترد کر دیا اور کہا ’’ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ملائشیا میں مستقل رہائش دی جا چکی ہے اور بطور شہری ہونے کے جب تک وہ اس سرزمین پر کسی غیر قانونی کام یا جرم کے مرتکب نہیں ہوتے تب تک انہیں سزا یا ملک بدر نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ بعد میں مودی حکومت نے ڈاکٹر صاحب کو ایک آفر دی کہ آپ آرٹیکل 370 کی حمایت کر دیں بھارت میں آپ پر لگے تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے لیکن ڈاکٹر صاحب نے مودی اور امیت شاہ کے ملائیشیا میں بھیجے ہوئے نمائندے کو صاف انکار کر دیا اور کہا کہ ’’مودی کا کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا قدم ہرگز درست نہیں‘‘۔ یہاں ڈاکٹر صاحب حق پر ڈٹ گئے۔ اپنے نفع، نقصان کو بالائے طاق رکھ کر باطل کی حمایت ہرگز نہیں کی۔ بھارت نے ڈاکٹر صاحب کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ان کی خفیہ ایجنسی را ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کے تعاقب میں رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی ہر پل حفاظت فرمائے۔
اب جب کہ ڈاکٹر صاحب کی پاکستان میں آمد آمد ہے۔ پاکستانیوں کی خوشیاں سنبھالے نہیں سنبھل رہیں۔ ایسی محبت کا اظہار کبھی کسی ملک کے بادشاہ، وزیراعظم یا صدر کے لیے بھی نہیں کیا ہوگا جو لوگ ڈاکٹر صاحب کے لیے کر رہے ہیں۔ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کی اس شخصیت سے محبت کا اظہار حیران کن ہے۔
لوگ ان کی آمد کے شدت سے منتظر ہیں اور ان کی گزرگاہوں پر دل بچھائے بیٹھے ہیں۔ ویسے سوچنے کی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب نہ تو کوئی مادی لحاظ سے بہت زیادہ امیر کبیر ہستی ہیں، نہ کسی ملک کے صدر بادشاہ ہیں، نہ کسی فاتح فوج کے سپہ سلار ہیں، نہ کسی سائنسی کمال کے موجد ہیں، پھر یہ ایک سادہ سا آدمی لوگوں کے دلوں میں اس قدر کیوں بستا ہے۔ تو اس کا جواب ہمیں قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں یہی ملتا ہے کہ قرآن ایک ایسی چیز ہے کہ جب بھی کوئی فرد، گروہ یا قوم قرآن کو پکڑ لیتے ہیں۔ اس کی خدمت میں جت جاتے ہیں۔ حامل یا عامل قرآن بن جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیا و آخرت کی سرفرازی عطا کر دیتے ہیں۔ دنیا میں انہیں لوگوں میں ممتاز کر کے اہل زمین کے دلوں میں بسا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کو بھی دنیا میں لاجواب شہرت اور عزت اس وقت ملی جب امریکا کے ڈاکٹر ولیم کیمل نے اپنی کتاب the Bible and the Qur’an میں لکھا کہ نعوذ باللہ قرآن مجید میں 38 سائنسی غلطیاں ہیں۔ ایک طرف تو ہم مسلمانوں کا آنکھیں بند کر کے یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید ہر طرح کی غلطی سے پاک ہے اور آج بھی ایسے ہی محفوظ ہے جیسے اپنے نزول کے وقت محفوظ تھا اور بالکل سو فی صد اسی حالت میں ہمارے پاس ہے جیسے حضرت جبرائیل ؑ اس دنیا میں لے کر آئے لیکن دوسری طرف سات سال گزرنے کے باوجود اہل اسلام کی طرف سے جامع طور پر ڈاکٹر ولیم کیمل کے اعتراضات کا جواب نہیں دیا گیا تھا۔ قرآن کی اس خدمت کے لیے ڈاکٹر ذاکر نائک نے اپنے آپ کو پیش کیا جبکہ اس وقت ان کی اپنی عمر صرف 30 سال تھی۔ انہوں نے اپنے آپ کو اسلام اور قرآن کی وکالت کے لیے بہترین تیار کیا اور ڈاکٹر ولیم کیمل کے اعتراضات کے جوابات دیے۔ یہ مناظرہ امریکی ٹی وی پر براہ راست دکھایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ڈاکٹر ذاکر نائک کی خوب مدد فرمائی اور انہوں نے نہ صرف ان اعتراضات کے مستند، دندان شکن، مدلل جوابات دیے بلکہ بائبل پر بھی اعتراضات اٹھائے۔ اس مناظرے کے بعد ولیم کیمل کا خود اعتراف تھا کہ ذاکر نائیک کے لیکچر کے بعد مجھے اپنی بائبل دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اسلام کی خدمات کے اعتراف میں دبئی اور سعودی حکومت نے انہیں ایوارڈز کے ساتھ خطیر انعامی رقوم بھی دیں مگر اس درویش صفت انسان نے یہ پیسے اپنے ذاتی استعمال کے بجائے اسلام اور قرآن کی خدمت کے لیے اپنی فاؤنڈیشن کو عطیہ کر دیے۔ تقابل ادیان اور مستشرقین کے قرآن پر اعتراضات کے مدلل جوابات پر ڈاکٹر صاحب کی شہرت کا ڈنکا نہ صرف اہل اسلام بلکہ پوری دنیا میں بچتا ہے۔
قرآن کے ذریعے عزت و سرفرازی کا وعدہ اللہ تعالیٰ کا صرف ڈاکٹر ذاکر نائیک سے نہیں بلکہ ہر اس مسلمان کے ساتھ ہے جو حامل قرآن بن جاتا ہے۔ قرآن کو سیکھنا اور سکھانا شروع کر دیتا ہے۔ قرآنی احکامات پر خود عمل پیرا ہو جاتا ہے اور دوسروں کو اس جانب راغب کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اپنی حیات کے شب و روز میں قرآن ہی کو اپنا رہنما بنا لیتا ہے۔ اپنے عمل کو اس کے احکامات کے تابع کر لیتا ہے۔ قرآن کے دیے گئے دستور کو فرض سمجھ کر سینے سے لگا لیتا ہے۔ روئے زمین پر قرآن کے دیے گئے نظام کو نافذ کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کا حصہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ قرآن بے حساب عزت و سرفرازی والی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ لگنے والے ہر فرد کو معزز و سرفراز کر دیتا ہے۔ بس یہی راز ہے۔