امریکا کا گڈ جنرل اور بیڈ جنرل

378

دنیا کے سامنے اب امریکی حکومت کا دوغلا چہرہ کھل کر سامنے آچکا ہے اور اس کی ڈھٹائی بھی اپنی حدود کو پار کرچکی ہے، اسرائیل کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ دینے والا امریکا آج سوڈان میں خانہ جنگی پر تشویش کا شکار ہے، اس کے علاوہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی یہی مرض لاحق ہے وہ کہتا ہے کہ سوڈان میں 16 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ میں 20 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جو بائیدن گزشتہ سال حماس سے نمٹنے کے لیے اسرائیل کے لیے 14 ارب ڈالر منظور کرچکا ہے، جس سے اسرائیل 42 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے اور لاکھوں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ جس سوڈان کی بات کی گئی ہے وہ اپریل 2023 میں اس وقت افراتفری کا شکار ہوگیا تھا جب فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کی رسہ کشی جنگ میں بدل گئی۔ ماہرین کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی نقل مکانی کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ ایک طرف یہ سارا بحران امریکا کا پیدا کردہ ہے اور دوسری طرف وہ تشویش کا شکار ہے، صدر جوبائیڈن نے اقوام متحدہ میں اپنا آخری خطاب کرتے ہوئے عالمی رہنمائوں کے سامنے سوڈان میں خانہ جنگی پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو لازماً سوڈان کے جرنیلوں کی لڑائی کو روکنا چاہیے ورنہ سوڈان میں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے گا۔ اتفاق سے ان کا یہ خطاب ایسے موقع پر تھا جب اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ کا ایک سال مکمل ہونے میں محض چند روز باقی رہ گئے ہیں اور اسرائیل نے اس دوران امریکی اسلحہ کے ذریعے ہزاروں بچوں اور عورتوں سمیت 42 ہزار فلسطینیوں کو اب تک قتل کر لیا ہے۔ غزہ کے بعد اسرائیلی فوج اب اپنا رخ لبنان کی طر ف موڑ چکی ہے۔ جہاں صرف دو دنوں میں چھے سو سے زائد لبنانی اسرائیلی بمباری سے مارے گئے ہیں۔ جبکہ ہزاروں لبنانیوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ اور امریکی صدر کو سوڈان کی پڑی ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ دنیا سوڈان کے جرنیلوں کو اسلحہ دینا بند کرے اور انہیں بتائے کہ اپنے ملک کو آنسوؤں کی طرف نہ دھکیلو۔ ان کو فلسطینیوں کے آنسو نظر نہیں آتے انہیں سوڈان سے اس قدر ہمدردی ہے اور جب مصر میں اخوان پر ٹینک چڑھا کر ایک رات میں چار ہزار لوگوں کو شہید کیا گیا تو امریکا نے مصری جنرل سیسی کو فوری طور پر اربوں ڈالر کا اسلحہ دیا تھا، امریکا کی تو تاریخ ہی جنگوں سے عبارت ہے، دنیا بھر میں مسلح گروہ منظم کرنا اس کا کام بلکہ دھندا ہے۔ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی سوڈان پر تشویش ظاہر کی۔ وہ سوڈان میں توپیں خاموش کرانا چاہتے ہیں لیکن اسرائیل کی توپوں اور طیاروں کے لیے جو بے حساب بارود بھیجا جارہا ہے اس پر وہ بے بس ہیں۔ اس پر محض شرمندہ ہیں، آنے والے دنوں میں سوڈان پر عالمی برادری متحرک ہوتی نظر آرہی ہے۔

دنیا کی منافقت کا جائزہ لیں تو سارا کھیل سمجھ میں آجاتا ہے کہ جیسے امریکا میں اچھا پولیس والا اور برا پولیس والا (گڈ کوپ بیڈ کوپ) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اسی طرح امریکا کے نزدیک گڈ جنرل بیڈ جنرل کی اصطلاح ہے، ویسے ہمیں اس کی تاریخ میں دنیا بھر میں تباہی پھیلانے، جمہوریت کو قتل کرنے آئین کو پامال کرنے والے جرنیل گڈ جنرل ہی نظر آئے ہیں، جنرل ایوب،جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف، جنرل باجوہ، اسرائیلی جنرلز، مصر کے جنرل سیسی، برما کے جنرل، کشمیر میں بھارتی جنرل، الجزائر میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل اور وہ تمام جنرل گڈ جنرل ہی لگے جو آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق شکن ہوں اسی لیے امریکا اسرائیلی جرنیلوں کو اسلحہ دے رہا ہے جو فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہیں اور مقبوضہ علاقے میں تباہی پھیلا رہے ہیں۔ امریکی چہرہ تو تاریخ میں واضح ہے کہ مستند بدمعاش ہے، وہ دنیا کی واحد قابض ریاست اسرائیل کو سب سے زیادہ فوجی امداد دینے والا ملک ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 2009 سے 2019 تک اسرائیل کے لیے دو اعشاریہ سات ارب ڈالر کا وعدہ کیا گیا، پھر اسے بڑھاکر تین ارب ڈالر کیا گیا 2023 میں اسے مزید بڑھا کر 3 اعشاریہ 8 ارب ڈالر کردیا گیا۔

حماس سے مقابلے کے لیے امریکا نے اسرائیل کے لیے کانگریس سے 14 ارب ڈالر منظور کرائے تھے جب سے اب تک اسرائیل 42 ہزار سے زاید فلسطینیوں کا قتل کر چکا ہے، اگر سابقہ فوجی امداد کو الگ بھی رکھیں تو بھی خاص حماس کی سرکوبی کے لیے منظور کردہ فوجی امداد اپنا رنگ دکھا رہی ہے، جو بائیڈن سے پوچھا جانا چاہیے کہ سوڈانی جرنیلوں پر پابندی چاہتے ہیں جو آپس میں لڑرہے ہیں اور اسرائیل کے لیے سارے خزانے کیوں کھلے ہوئے ہیں جو قبضہ کرکے بیٹھا ہے، اور مقبوضہ علاقے کے سویلین لوگوں کو مارتا ہے۔

ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے کہ دنیا میں یہ جنگیں کیوں ہورہی ہیں۔ اور کون کس کی مدد کررہا ہے، ایک طرف امریکا اسرائیل کی بھرپور فوجی اور سیاسی مدد کررہا ہے اور دوسری طرف اس اسلحے سے جو امریکا اور دوسرے ممالک اسرائیل کو دے رہے ہیں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور تباہی ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکا غزہ اور فلسطین میں بحالی اور ترقی کے کاموں کے لیے انسانی بنیادوں پر بھی اربوں ڈالر دے رہا ہے۔ 1994 سے اب تک وہ 5 اعشاریہ 2 ارب ڈالر دے چکا ہے، یہ کون سی انسانی بنیادیں ہیں، کہ انسانوں کو مارا جارہا ہے اور انسانی بنیادوں پر مدد دی جارہی ہے، سعودی عرب بھی اقوام متحدہ کے ذریعہ چار کروڑ ڈالر سالانہ فلسطین کے لیے دیتا ہے۔ فلسطینیوں کی اس امداد اور اسرائیل کی فوجی سرپرستی کا کوئی مقابلہ نہیں ہے اکیلا امریکا یورپی ممالک اور اقوام متحدہ کے مقابلے میں دہشت گرد اسرائیل کی مدد میں سب پر بھاری ہے، ایران اور قطر پر بھی حماس کی مدد کا الزام ہے لیکن قطر پر 1 اعشاریہ 8 ارب ڈالر اور ایران پر حماس اور دیگر کو سو ملین ڈالر دینے کا الزام ہے، اب جو صورتحال سامنے آئی ہے تو امریکا، یورپی ممالک اور اسلامی ممالک اسرائیل اور فلسطین دونوں کی کچھ نہ کچھ مدد کررہے ہیں، اس چالاکی سے مغرب انسانی ہمدردی کررہا ہے کہ نقصان انسانوں کا ہورہا ہے اور انسان ہی مررہے ہیں اور انسانی ہمدردی والے اسرائیل کو فوجی امداد بھی دے رہے ہیں، لیکن جنگ اور امن ایک ساتھ تو نہیں ہو سکتے، جنگوں کو یہی مغربی ممالک پھیلارہے ہیں اور ہوا دے رہے ہیں تاکہ ان کا اسلحہ خوب فروخت ہو، اور تھوڑی بہت انسانی امداد دے کر چہرہ اور ہاتھ صاف کرلیے جائیں جن پر معصوم انسانوں کے خون کے داغ ہیں۔