غریبوں پر ظالمانہ ٹیکس اور حکومتی عیاشیاں

360

عالمی استعمار کے ایجنٹ اور بین الاقوامی ساہوکار آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے نئے قرض کی منظوری دے دی ہے جس میں سے ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط پاکستان کو ادا بھی کر دی گئی ہے، حکمران خصوصاً وفاقی وزراء اس پر خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے تازہ معاہدہ کو ملکی معیشت کے لیے مژدۂ جاں فزا قرار دیا جا رہا ہے تاہم جشن کی کیفیت میں مبتلا حکمران طبقہ اس بات کو فراموش کئے بیٹھا ہے کہ صرف قرض کی منظوری یا ڈالروں کا حصول ملکی معیشت کی اصلاح و استحکام کی ضمانت نہیں، پاکستان قبل ازیں بھی بار ہا آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنی معیشت کی بہتری کی کوشش کر چکا ہے مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ ع: مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی… 1968ء کے بعد سے آئی ایم ایف سے پاکستان کا 24 واں قرض پروگرام ہے مگر کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ان قرضوں کے نتیجے میں ہمارے معاشی بحران میں مسلسل اضافہ ہوا ہے مگر اس کے باوجود ہم قرض پہ قرض لیے چلے جا رہے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ قرض ہمیں سود مرکب سمیت ادا بھی کرنا ہے… ہمارے اس طرز عمل کے سبب قرض دہندگان کی شرائط بھی سخت سے سخت تر ہوتی چلی جا رہی ہیں، موجودہ سات ارب ڈالر کے قرض پیکیج کی منظوری سے قبل ہی عالمی مالیاتی ادارے نے نہایت کڑی شرائط عائد کر کے ان پر عمل درآمد بھی کروا لیا ہے تاہم اسی پر بس نہیں کیا گیا، قرض کی منظوری کے ساتھ مزید کڑی شرائط بھی عائد کر دی گئی ہیں جن پر عمل کرنا بھی لازم ہو گا… اب تک اس ضمن میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو نئی شرائط منظر عام پر آئی ہیں ان کے مطابق پاکستان کو اپنے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ فارمولے پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ آئی ایم ایف صوبائی حکومتوں کے اخراجات کی بھی نگرانی اور مانیٹرنگ کرے گا۔ پاکستانی وفاق اور صوبوں کی باہمی رضا مندی سے طے پانے والا این ایف سی ایوارڈ اب مزید نہیں چل سکے گا اس ضمن میں نیا معاہدہ آئی ایم ایف کی ہدایات کی روشنی میں طے کر کے روبہ عمل لانا ہو گا، یہ صرف آئی ایم ایف کا مطالبہ ہی نہیں بلکہ حکم ہے جس پر عمل کے لیے پاکستانی وفاقی و صوبائی حکومتیں کام شروع بھی کر چکی ہیں، اس کے باوجود ہم اگر قومی خود مختاری اور معاشی آزادی کے دعوے کرنا چاہیں تو کرتے رہیں حقیقت مگر یہی ہے کہ:۔

ناحق ہم مجبوروں یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بد نام کیا

عالمی مالیاتی ادارے کی دیگر کڑی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ مستقبل میں پنجاب حکومت کی طرز پر بجلی قیمتوں پر ریلیف نہیں دیا جائے گا اور پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے دوران ضمنی گرانٹس جاری نہیں کرے گا۔ پاکستان زرعی شعبہ ، پراپرٹی سیکٹر اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لائے گا۔ آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ پاکستان شعبہ توانائی کو جی ڈی پی کے ایک فیصد سے زائد سبسڈی نہیں دے گا، بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے اصلاحات کی جائیں گی، حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے جامع پیکیج لائے گی اور غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کا تعین نہیں کیا جائے گا اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کے ڈھانچے کو کم کیا جائے گا۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے تاکہ بجلی نرخوں میں کمی لائی جا سکے۔ … آئی ایم ایف سے جب بھی قرض کے کسی پروگرام پر دستخط کئے گئے، اس کے ساتھ ملک میں معاشی اصلاحات کے بلند بانگ عزائم کا بھی اظہار کیا گیا مگر یہ عزائم کبھی عملی شکل اختیار نہ کر سکے تاہم اب کی بار آئی ایم ایف نے جہاں اپنی بہت سی شرائط پر پیشگی عملدرآمد کو یقینی بنایا ہے وہیں اپنے باقی ماندہ ایجنڈے پر عمل کے لیے بھی ٹھوس پیش رفت کی ہے، چنانچہ پاکستان کے وزیر خزانہ، جو فی الحقیقت آئی ایم ایف ہی کے نمائندے بتائے جاتے ہیں، نے سات ارب روپے کے موجودہ توسیعی پروگرام کی منظوری کے ساتھ ہی وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں واضح کر دیا ہے کہ اب معاشی اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں، تنخواہ دار اور مینوفیکچرنگ طبقے پر جو اضافی بوجھ ڈالا گیا تھا اسے کم کیا جائے گا اور ٹیکس نیٹ سے باہر ریٹیلرز، ہول سیلرز، زراعت اور پراپرٹی کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا، فیڈرل بورڈ آف ریونیو ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو حراست میں لیے بغیر انہیں ٹیکس نیٹ میں لائے گا۔ پاکستان میں نو ہزار ارب روپے کی غیر دستاویزی معیشت ہے جسے دستاویز میں لا کر خود بخود ملکی معیشت کو دو ہندسوں میں لایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف بہت واضح سوچ رکھتے ہیں کہ کاروبار کرنا حکومت کا نہیں بلکہ نجی شعبے کا کام ہے، اس لیے کابینہ کی نجکاری کمیٹی حکومتی اداروں کی نجکاری کے عمل کو آخری مراحل میں لے جا چکی ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ ہوں یا وزارت خزانہ کے دیگر ذمہ داران، ان سب کی تان+ اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے گا حالانکہ ہماری رائے میں ٹیکس نیٹ جتنا وسیع پاکستان میں ہے شاید ہی دنیا کے کسی مہذب ملک میں ہو … پاکستان میں غریب سے غریب آدمی بھی جب روز مرہ استعمال کی معمولی سے معمولی چیز بھی خریدتا ہے تو وہ اس پر جی ایس ٹی کے نام پر بھاری ٹیکس پیشگی ادا کرتا ہے، اسی طرح بجلی، گیس اور پٹرول کی فروخت کے ذریعے بھی حکومت پاکستان ظالمانہ حد تک بھاری شرح سے ٹیکس عام آدمی سے وصول کرتی ہے مگر اس کے باوجود ہمیشہ ٹیکس نیٹ کے محدود ہونے کا گلہ کر کے عام آدمی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے صدر مملکت، وزیر اعظم اور اسی قسم کے ملک کے بہت سے ’’غریب‘‘ لوگوں کو بلا ٹیکس درآمدت کی اجازت دے رکھی ہے جس کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔ اشرافیہ کو جو مراعات سرکاری خزانے سے فراہم کی جاتی ہیں، پروٹوکول کے نام پر جو بھاری اخراجات کئے جاتے ہیں ان میں کمی پر کوئی سوچنے تک کو تیار نہیں۔ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کی واضح سوچ کو بھی خراج تحسین پیش کیا ہے مگر اس ضمن میں حقیقت یہی ہے کہ وزیر اعظم کے بچت کے اعلانات زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس کا بجٹ گزشتہ برسوں کے مقابل بڑھا دیا گیا ہے۔ جناب شہباز شریف کے اپنے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے الزام لگایا ہے کہ غریب عوام پر بھاری ٹیکسوں کے نفاذ کے باوجود حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کی بجائے 24 فیصد بڑھا دیئے ہیں… وزیر اعظم کی کفایت شعاری مہم پر عملدرآمد کی صورت حال کا اندازہ اس خبر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے وفاقی کابینہ کے ارکان کے لیے 24 کروڑ روپے کے خرچے سے 25 نئی گاڑیاں خریدی ہیں یہ نئی گاڑیاں کابینہ ڈویژن کے کارپول میں پہنچ گئی ہیں، دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ان گاڑیوں کی خریداری سے قبل حکومت کی قائم کردہ کفایت شعاری کمیٹی سے منظوری بھی لی گئی ہے، کابینہ کے تمام ارکان کے پاس چونکہ پہلے سے گاڑیاں موجود ہیں اس لیے نئی گاڑیاںوزرائے کرام کو متبادل کے طور پر الاٹ کی جائیں گی…!!!