کراچی (رپورٹ:خالد مخدومی)میری ماں 11 برس سے آخری دم تک جبری طور لاپتا کیے گئے اپنے بیٹے کی راہ تکتی رہی ،11 برس تک پاکستان کے اصل مقتدر حلقوں کو ایک بوڑھی ماں پر رحم نہیں آیا،ماں کہتی تھیں کہ روز محشر ان ظالموں کو معاف نہیں کروں گی ۔ان خیالات کا اظہارگزشتہ 11 برس سے جبری طور پر لاپتا کیے گئے دانش عقیل انصاری کے بڑے بھائی محمد علی انصاری نے نمائندہ جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہاکہ میرے والد کا انتقال2جون 1987 ء کوکراچی میں ہواتھا اس وقت ہم سب بہت چھوٹے تھے ہم 5 بھائی ہیں میری والدہ نے ہم پانچوں بھائیوں کی بڑی محنت مشقت اور حوصلے کے ساتھ ہماری پرورش کی، ہمیں پڑھایا لکھایا اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا۔انہوں نے بتایا کے میری والدہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے دانش کے لیے بہت بے چین رہتی تھیں24 گھنٹے دروازے کو تکتی رہتی تھیں کہ شاید میرا بیٹا کسی لمحے کہیں سے واپس آجائے۔راتوں کو اٹھ اٹھ کر دروازے کی طرف حسرت بھری نظروں سے تکتی اور ہر رات بستر پر بے چینی سے کروٹیں بدلتی رات گزارتی تھی۔انہوں نے بتایا کہ والدہ اکثر رات کے اوقات میںدانش کے شادی کے لیے رکھے ہوئے زیوارات کو نکال کر ہچکیوں کے ساتھ روتی رہتی تھی اور کہتی تھی کہ دانش تم جلدی آجائو میں تمہارا انتظار کررہی ہوں میں تمہاری دلہن لانا چاہتی ہوں تم کہا ںہو جلدی سے آجا ئو میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور بالآخر میری والدہ11برس سے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کی آمد کی امید لگائے 17 ستمبر 2024ء بروز منگل 12 ربیع اول کو دنیا فانی سے رخصت ہو گئیں۔ انہوں نے بتایاکہ لاپتا دانش کی والدہ اپنی موت سے پہلے اپنے جگر گوشے کے لیے بہت دعا ئیں کرتی رہیں۔ بیٹے کی بازیابی کا انتظار کرتے کرتے میری والدہ اس دنیا سے چلی گئیں،اپنے لاپتابیٹے کے انتظار میں میری بوڑھی ماں پل پل تڑپتی رہی لیکن مقتدر حلقوں کو یہ گوارا نا ہوا کہ وہ ان کے آخری ایام میں انہیں سکون سے جینے دیتے،دانش کی واپسی کے انتظار میں مجھ سمیت اہل خانہ کی زندگی عذاب بن گئی ہے۔ ہمارا ہر لمحہ درد اور تکلیف سے بھرا ہے ہم طویل انتظار کے بعد اس نظام سے ناامید اور مایوس ہوچکے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ والدہ محترمہ کی مغفرت فرمائے،ان کی قبر کو نور سے منور کر دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے (آمین)۔