دعا کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینے تک اْٹھا کر دعا مانگے اور دعا ختم کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرلے۔ اگر دعا کرنے والا باوضو اور قبلہ رو ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ فرض نمازوں کے بعد یا سنن و نوافل کے بعد جو دعائیں مانگی جاتی ہیں ان میں ان آداب پر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے اور مسلمان ایسا کرتے بھی ہیں۔ دعا سے پہلے اللہ کی حمد و ثنا اور نبیؐ پر درود بھیجنا اور دعا کے بعد آمین کہنا بھی آدابِ دعا میں داخل ہے۔ دعا کے یہ آداب، احادیث ِ رسولؐ سے ثابت ہیں۔
دعاؤں کے لیے بھتر اوقات
دعائوں کے لیے شریعت نے پنج وقتہ نمازوں کی طرح کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا ہے۔ دعا ہر وقت کی جاسکتی ہے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعائوں کے لیے بہتر اوقات و حالات کا انتخاب کرنے سے ان کی مقبولیت کی زیادہ توقع پیدا ہوجاتی ہے۔ امام غزالیؒ اور دوسرے علما و صوفیا نے ان اوقات و حالات کو یکجا کرکے بیان کیا ہے۔
ایک وقت تو پورے سال میں ایک بار آتا ہے جیسے یومِ عرفہ، اور سال کے بارہ مہینوں میں ایک مہینہ رمضان المبارک اور بالخصوص شب ِقدر۔ بعض اوقات ہر ہفتہ آتے ہیں جیسے جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن۔ بالخصوص نمازِ جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان اور سورج ڈوبنے سے تھوڑی دیر پہلے۔ بعض اوقات روزانہ آتے ہیں جیسے آخر شب میں سحر کا وقت، فرض نمازوں کے بعد، اذان و اقامت کے وقت اور اذان و اقامت کے درمیان، بارش کے وقت۔ سجدے کی حالت میں تکثیر دعا کی ترغیب دی گئی ہے۔ روزے دار کے لیے افطار کا وقت، مسافر کے لیے ابتداے سفر کا وقت اور حالت سفر میں، حالت اضطرار میں۔ اس حالت میں جب اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قیامت کی ہولناکی کے تصور سے جسم پر لرزہ طاری ہو۔ دعائوں کے لیے ان اوقات و احوال کے بہتر ہونے کے ثبوت میں قرآن کی آیات اور صحیح احادیث موجود ہیں۔
مومن کی دعا رد نہیں کی جاتی۔
حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’بلاشبہہ تمھارا رب صفت حیا سے متصف اور کریم ہے۔ جب اس کا بندہ اس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ ان ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘۔ (ترمذی، ابوداؤد، بیہقی) اس سے معلوم ہوا کہ بندۂ مومن کے دعا میں اْٹھے ہوئے ہاتھ کبھی محروم اور خالی واپس نہیں آتے بلکہ اپنے مولاے کریم سے کچھ نہ کچھ لے کر لوٹتے ہیں، لیکن یہ بات ذہن میں اوجھل نہ ہونے دینا چاہیے کہ قبولیت ِ دعا کے آداب و شرائط کا لحاظ ضروری ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ نبیؐ سے روایت کرتے ہیں: ’’جب کوئی مسلمان ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا رشتے کو کاٹنے والی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز عطا فرماتا ہے: 1۔جو کچھ اس نے مانگا ہے دنیا ہی میں اسے دے دے، 2۔اس کا اجر آخرت کے لیے ذخیرہ کردے، 3۔جو خیر اس نے مانگی تھی اسی کے مثل کوئی شر اس سے دْور کردے۔ صحابہؓ نے کہا: تب تو ہم بہ کثرت دعائیں مانگیں گے۔ حضورؐ نے فرمایا: اللہ کا خزانہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ مسنداحمد ، بزار و ابویعلٰی)
اسی مضمون کی حدیثیں حضرت عبادہ بن الصامت، حضرت ابوہریرہ اور حضرت جابرؓ سے بھی مروی ہیں۔ ان حدیثوں میں بھی قبولیت دعا کی ایک شرط مذکور ہے، یعنی یہ کہ اس کی دعا میں کسی گناہ کی طلب یا قطع رحمی کی کوئی بات نہ ہو۔ دعا میں قطع رحمی کی ایک صورت یہ ہے کہ رشتے داروں کے حق میں دعاے خیر کے بجاے بددعا کی گئی ہو۔
یہ حدیثیں مجھ جیسے عجلت پسند انسان کو اطمینان دلاتی ہیں کہ شرائط و آداب کے ساتھ کوئی بھی مخلصانہ دعا رد نہیں کی جاتی۔ ہم دنیا میں کوئی بھلائی مانگتے ہیں اور وہ نہیں ملتی یا کسی مصیبت اور تکلیف کو دْور کرنے کی دعا کرتے ہیں اور وہ دْور نہیں ہوتی تو ہم دل شکستہ اور مایوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ حدیثیں اس دل شکستگی اور مایوسی کو ختم کردیتی ہیں اور ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ مانگنے کے باوجود دنیا میں ہمیں جو کچھ نہیں ملا اس کا بدلہ آخرت میں ضرور ملے گا اور وہاں جو کچھ ملے گا وہ بہتر بھی ہوگا اور پایندہ تر بھی۔