اس وقت حکومت آئی ایم ایف اور آئی پی پیز کے درمیان بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا جو قرضہ اگست کے مہینے میں ملتا وہ اس لیے نہیں ملا کہ اگست میں آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈایکٹرز کے اجلاس میں یہ نکتہ ایجنڈے پر نہیں تھا۔ ایجنڈے پر کیوں نہیں تھا اس لیے کہ آئی ایم ایف حکومت پاکستان کے معاشی اقدامات سے مطمئن نہیں ہوگی۔ اب جو اجلاس ہوا ہے اس میٹنگ میں منظوری کے بعد پاکستان کو یہ قرضہ مل جائے گا۔ آئی ایم ایف ایک ایسا بین الاقوامی سودی مہاجن ہے جس کو اپنے قرضے سے زیادہ اپنے سود کی وصولیابی کی فکر ہوتی ہے۔ اس وقت بھی ہمارے بجٹ کا نصف سے زیادہ حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے اس رقم کا بہت بڑا حصہ آئی ایم ایف کو جاتا ہے۔ اس ادارے کو یہ فکر ہوئی کہ اگر پاکستان اپنے دیگر ممالک سے لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کرے گا تو ہمیں سود کی رقم ملنے میں مشکلات ہو سکتی ہیں اس لیے اس نے اس نئے قرض کے لیے جس کی اصولی منظوری پہلے ہی ہو چکی تھی یہ شرط لگادی کہ پاکستان چین، سعودی عرب اور امارات قرضوں کو رول اوور کروائے یعنی اس کی واپسی کی مدت میں دو سے پانچ سال تک بڑھا دی جائے۔ اب اس کے لیے پاکستان کو اپنے ان دوست ممالک سے منت ترلے کرنا پڑے پھر ان ممالک کے اپنے اسٹیک بھی پاکستان کے ساتھ ہیں اس لیے طوعاً اور کرھاً انہیں یہ قرضے رول اوور کرنا پڑگئے، اب جب آئی ایم ایف کو یہ یقین ہو گیا کہ یہ کام پاکستان نے کرلیا تو اب یہ قرض منظور ہو گیا۔
دوسری طرف آئی پی پیز کا مسئلہ ہے جس کی لاتعداد مشکلات ہیں پہلی تو یہ کہ اس میں زیادہ تر ن لیگ سے وابستہ شخصیات ہیں دوسرے نمبر پر پی پی پی سے منسلک افراد ہیں اور پھر دوسرے جو کاروبار ی لوگ ہیں وہ بھی حکومت کے قریب سمجھے جاتے ہیں اس لیے حکومت ان سے کوئی سختی والا معاملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے حکومت کو ان لوگوں کی بھی منت سماجت کرنا پڑرہی ہے اس لیے کہ خدشہ ہے کہ اگر سختی کی گئی تو حکومت کو ریکوڈیک جیسے جرمانے کا سامنا نہ کرنا پڑجائے گا ان آئی پی پیز مالکان کی جو آمدنی ہے وہ ڈرگ مافیا کی آمدنی سے بھی بہت زیادہ ہے ایک اندازے کے مطابق ان آئی پی پیز کو دو ہزار ارب سے زائد رقم وہ ادا کی جاتی ہے جس کے بدلے وہ ایک یونٹ بھی بجلی پروڈیوس نہیں کرتی ایسے منافع والے بزنس کو کون چھوڑتا ہے دوسری طرف عوامی دبائو ہے جس کا حکومت کو سامنا ہے اس لیے ہر آئے دن وفاقی وزیر توانائی کے تسلی و تشفی والے بیانات آتے رہتے ہیں تاکہ عوام مطمئن ہو جائیں کہ انہیں جلد کوئی بجلی کے حوالے سے خوشخبری ملنے والی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ان آئی پی پیز کی وجہ سے ملک میں ڈیم نہیں بن پائے اور جن ڈیموں پر کام بھی ہورہا ہے ان میں بھی کافی سست روی سے کام ہورہا ہے کہ دوسال میں مکمل ہونے والا ڈیم پانچ سال تک پہنچ گیا اور اس کی لاگت بھی پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہے۔
اس وقت ہمارا الیکشن کمیشن بھی عدالت عظمیٰ اور پارلیمنٹ کے درمیان سینڈ وچ بنا ہوا ہے۔ حکومت کے دبائو پر پہلے اس نے خواتین کی مخصوص نشستیں جو پی ٹی آئی کو ملنے والی تھیں وہ دیگر جماعتوں میں تقسیم کردیں، پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے اس ناانصافی پر مبنی فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں گئی عدالت عظمیٰ کے فل بنچ نے 12 جولائی کو 8 ججوں کی اکثریت سے یہ فیصلہ دیا کہ جو پی ٹی آئی کے 39 ارکان قومی اسمبلی نے انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی سے وابستگی کو جو پیپر الیکشن میں جمع کرایا تھا وہ پہلے ہی سے پی ٹی آئی کے ہیں ہی لیکن وہ 41 ارکان قومی اسمبلی جو آزاد لڑے تھے لیکن انہیں پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے پر عمران خان کے ووٹ ملے تھے اور اب سنی اتحاد کونسل میں ہیں وہ تمام ارکان پندرہ دن کے اندر اپنی وابستگی تبدیل کر سکتے ہیں یعنی وہ پی ٹی آئی میں جا سکتے ہیں پھر پندرہ دن کے اندر وہ بھی سب تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اس طرح پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں 80 نشستیں ہو گئیں۔ اسی فیصلے میں پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں جو دوسری جماعتوں میں تقسیم کردی گئیں تھیں وہ کالعدم قرار دے دی گئیں۔ اب یہاں پر الیکشن کمیشن کا جزبز والا رویہ سامنے آتا ہے۔ پہلے تو کہا گیا کہ اس کی عدالت عظمیٰ سے مزید رہنمائی حاصل کی جائے گی اور دو ماہ سے زیادہ ہوگیا الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا۔ اب یہ کسی کو پتا نہیں کہ الیکشن کمیشن پر حکومت کا دبائو ہے یا کسی اور کا۔ ہمارے اداروں کے اندر بھی ذہنی وابستگی کے حوالے تقسیم ہوچکی ہے اس لیے جن دو ججوں نے 12 جولائی کے فیصلے کی مخالفت کی تھی انہوں بعد میں ایک تفصیلی وضاحت جاری کی۔ ادھر عدالت عظمیٰ کے 8 ججوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے فیصلے پر الیکشن کمیشن عملدرآمدکرنے سے ہچکچا رہا ہے تو انہوں نے بھی ایک مشترکہ وضاحتی بیان جاری کیا اور یہ بھی کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو نہ ماننے کی صورت میں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری طرف اسپیکر ایاز صادق نے الیکشن کمشنرکو خط لکھا کہ قومی اسمبلی نے جو الیکشن ترمیمی ایکٹ منظور کیا ہے اس کا اطلاق 2017 سے ہوگا عدالت عظمیٰ کے آٹھ ججوں کی وضاحت کے باوجود اسپیکر کے خط کے بعد قومی اسمبلی سیکٹریٹ نے جو پارٹی پوزیشن جاری کی اس میں تحریک انصاف کی پارلیمانی حیثیت ختم ہوگئی اس لیے کہ پی ٹی آئی کی تمام 80 نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دے دی گئیں اس سے پہلے 39 اراکین کو تحریک انصاف اور 41 کو آزاد قرار دیا گیا تھا۔ حکومتی بنچز میں مسلم لیگ ن 110 پیپلز پارٹی 69 ایم کیو ایم پاکستان 22 ق لیگ 5 آئی پی پی 4 جبکہ مسلم لیگ ضیاء، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن ہیں جبکہ جے یو آئی کی 8 اور 8 ہی آزاد ارکان ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کی صورت میں 23 مخصوص نشستیں ن لیگ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کو ملیں گی۔
اب الیکشن کمشنر اس مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ کی بات مانی جاتی ہے تو توہین عدالت کی تلوار لٹک رہی اور اگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہیں تو پھر توہین طاقت کے مجرم قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اداروں کی اس لڑائی کا مستقبل کیا ہوگا۔ معروف صحافی سلیم صافی نے پچھلے دنوں اپنے کالم میں ایک واقعہ لکھا جو من و عن پیش خدمت ہے۔
’’جنرل پرویز مشرف سے پہلے جب کوئی بات ہوتی تو مسلم لیگی وزراء کہتے کہ مارشل لائوں کا دور ہمیشہ کے لیے گزر چکا ہے حالانکہ اس وقت ہمارا چین کے بجائے امریکا پر انحصار زیادہ تھا۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگا دیا۔ ایک دن میں نے جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سے پوچھا جب آپ لوگ مارشل لا لگا رہے تھے تو آپ لوگوں نے امریکا، عدلیہ اور معیشت وغیرہ کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ معمول کے حالات میں ہم ان سب چیزوں کو مد نظر رکھتے ہیں۔ ہم بھی ہر روز یہ حساب کتاب رکھتے ہیں لیکن جب معاملہ سر پر آجائے تو پھر ہم کچھ نہیں سوچتے۔ انہوں نے کہا کہ جب فیصلہ ہوا کہ اب جنرل مشرف کو بچانا ہے تو ہم نے نہ یہ سوچا کہ امریکا کیا کرے گا، یورپ کیا کرے گا، عدلیہ کے ساتھ کیا ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ۔ تین چار روز تک ہم ایک چیز سوچ رہے تھے کہ ملک کنٹرول کریں اور مخالفین کو قابو کرلیں۔ جب یہ سارے کام ہم نے کرلیے تو پھر یہ سوچنے بیٹھ گئے کہ اب امریکا کا کیا کریں گے اور عدلیہ کے ساتھ کیسے آگے بڑھیں گے وغیرہ وغیرہ۔ غرض ان کا کہنا تھا کہ جب فوج کی اپنی جان پر آجاتی ہے تو پھر وہ کسی اگر مگر کو ذہن میں نہیں لاتی‘‘۔