پنجاب کے گورنر سردار سلیم حیدر خان نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہماری آرمی تگڑی ہے اسی لیے ملک قائم ہے۔ اگر آرمی کمزور ہو گئی تو یہ ملک قائم نہیں رہ سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا نقصان کر لیں گے مگر ایسا کچھ نہیں کریں گے جس سے ملک کا نقصان ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو فوج سے شکایت ہے ہم بیٹھ کر فوج سے بات کر سکتے ہیں۔ (روزنامہ دنیا‘ کراچی۔ 14 ستمبر 2024ء)
ہم نے یہ خبر پڑھی تو ہمیں اپنا زمانۂ طالب علمی یاد آگیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ میں ایم اے کے طالب علم تھے‘ ہمارے اساتذہ میں ایک استاد متین الرحمن مرتضیٰ بھی تھے۔ وہ ان دنوں ہفت روزہ تکبیر کے اداریہ نویس تھے۔ ان سے ایک ملاقات ہوئی تو ہم نے ان کے سامنے فوج پر ہلکی پھلکی تنقید کر دی۔ ہماری تنقید سن کر متین الرحمن مرتضیٰ ناراض ہو گئے اور پنجاب کے گورنر سردر سلیم حیدر کی طرح کہنے لگے کہ آپ ابھی کم عمر ہیں۔ آپ حقائق کا پورا ادراک نہیں رکھتے چنانچہ آپ کو معلوم نہیں کہ پاکستان فوج کی وجہ سے قائم ہے۔ فوج ہے تو پاکستان ہے، فوج نہیں تو پاکستان بھی نہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ متین صاحب آپ نے تو عجیب بات کہہ دی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو پاکستان کا نظریہ یعنی اسلام تھامے ہوئے نہیں ہے۔ پاکستان کو پاکستانی قوم کا باہمی اتحاد سنبھالے ہوئے نہیں ہے۔ ہمارا مشترک تاریخی اور تہذیبی تجربہ اس سلسلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اہمیت ہے تو صرف فوج کی۔ فوج ہے تو پاکستان ہے، فوج نہیں تو پاکستان بھی نہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ آپ نے سارا کریڈٹ فوج کو دے دیا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی بقا اور سلامتی کا سارا بوجھ فوج پرڈال دیا۔ بھلا یہ کوئی معقول بات ہے۔ ہماری ان باتوں کا متین صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ چنانچہ وہ خاموش ہوگئے اور ہم ان کے پاس سے اٹھ آئے۔
اسلامی تاریخ میں حضور اکرمؐ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے زمانے کے بعد بہترین زمانہ سیدنا عمرؓ کا تھا۔ ان کے زمانے میں اسلامی لشکر نے اتنی فتوحات کیں کہ اگر سیدنا عمرؓ کو مزید دس سال مل جاتے تو پوری دنیا مسلمانوں کے زیر نگیں ہوتی۔ زیر بحث موضوع کے حوالے سے یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اسلامی فوج کی ساری فتوحات کا کریڈٹ جلیل القدر صحابی سیدنا خالد بن ولیدؓ کو دیا جاتا تھا۔ لوگ کہتے تھے خالد ہیں تو فتوحات ہیں۔ سیدنا عمرؓ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے بہ یک جنبش قلم سیدنا خالد بن ولیدؒ کو ان کے عہدے سے معزول کر دیا۔ لوگوں نے کہا یہ آپؓ نے کیا کیا؟ سیدنا عمرؓ نے کہا لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلامی لشکر کی فتوحات اسلام کی برکات کی وجہ سے ہیں خالد کی وجہ سے نہیں۔ مگر ہمارا یہ حال ہو گیا کہ ہم پاکستان کی بقا اور سلامتی کو ملک کے نظریے، قومی اتحاد، قومی یگانگت، قومی وحدت اور قومی خوش حالی سے نہیں فوج سے وابستہ کر رہے ہیں اور ہم ایسا کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ 1971ء میں فوج آج سے بھی زیادہ تگڑی تھی مگر اس کے باوجود پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ فوج پاکستان کی بقا اور سلامتی کی ضامن ہوتی تو وہ 1971ء میں بھی ملک کو بچا لیتی۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ صرف فوج ملک کی بقا و سلامتی کی ضامن نہیں ہوگی۔ سوویت یونین وقت کی دو سپر پائور میں سے ایک تھا۔ اس کے پاس پانچ ہزار سے زیادہ ایٹمی ہتھیار تھے۔ اس کے پاس دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج تھی مگر سوویت یونین کی فوج سوویت یونین کو ٹوٹنے سے نہ بچا سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین کا نظریہ سوشلزم اپنی نظریاتی کشش کھو چکا تھا اور افغان جنگ کی وجہ سے سوویت یونین معاشی اعتبار سے کنگال ہو چکا تھا۔ ایران کے انقلاب سے پہلے رضا شاہ پہلوی ایران کا حکمران تھا۔ وہ خطے میں امریکی سی آئی اے کا سب سے بڑا ایجنٹ تھا۔ اس کے پاس بڑی فوج اور بڑی خفیہ ایجنسی تھی مگر ایران میں خمینی انقلاب آیا تو شہنشاہ ایران کی فوج شہنشاہ کے اقتدار کا تحفظ نہ کرسکی اور لاکھوں لوگوں کا سیل رواں سب کچھ بہا کر لے گیا۔
عراق کے صدر صدام حسین نے بھی ایک بڑی فوج تیار کی ہوئی تھی مگر امریکا نے حملہ کیا تو صدام کی فوج دو دن بھی امریکا کا مقابلہ نہ کرسکی اور گدھے کے سر سے سینگ کی طرح دو دن میں غائب ہو گئی۔ لیبیا میں قذافی کے خلاف بغاوت ہوئی تو لیبیا کی فوج بھی قذافی کا دفاع نہ کرسکی اور قذافی کو لیبیا کے گلی کوچوں میں گھسیٹ دیا گیا۔
اس کے برعکس تاریخ بتاتی ہے کہ نظریے کی قوت نے بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دی ہے۔ قائداعظم نے پاکستان بنایا تھا تو ان کے پاس فوج نہیں تھی، کوئی ٹینک اور توپ نہیں تھی صرف ان کے پاس دو قومی نظریہ تھا اور کردار کی صلابت تھی۔ اس کے آگے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ بھی جھک گئی اور ہندو اکثریت کو بھی بالآخر قائد اعظم کی بات ماننی پڑی۔ 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو مٹھی بھر مجاہدین نے اس کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور دس سال میں مجاہدین کی شجاعت اور جہاد کی برکت نے سوویت یونین کو شکست سے دوچار کر دیا۔ اس طرح کہ سوویت یونین نہ اپنا وجود بچا سکا اور نہ اپنے نظریے کا تحفظ کر سکا۔ لیکن نظریے کی اس فتح پر اسلام دشمن طاقتوں نے کہا کہ یہ مجاہدین اور جہاد کی فتح تھوڑی ہے یہ تو امریکا اور یورپ کے ہتھیاروں اور ڈالروں کی فتح ہے چنانچہ نائن الیون کے بعد جب امریکا 49 اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر قابض ہوا تو لوگوں نے کہا اب افغانستان میں وہی کچھ ہوا جو امریکا چاہے گا۔ لیکن طالبان کے بے مثال جہاد نے 19 سال میں امریکا اور اس کے 49 اتحادیوں کو منہ کے بل گرا دیا۔ امریکا جن طالبان کو وحشی اور درندے کہتا تھا انہی کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوا اور اس نے بالآخر افغانستان چھوڑ دیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ طالبان کو پاکستان کی خاموش حمایت حاصل تھی مگر سوال یہ ہے کہ آج حماس کو اپنے نظریے کے سوا کس قوت کی حمایت حاصل ہے؟ عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ 1967, 1948 اور 1973 میں مشترکہ جنگیں لڑیں مگر عربوں کی مشترکہ فوجی قوت بھی اسرائیل سے پٹ گئی۔ لیکن آج حماس کسی باضابطہ فوج کے بغیر ایک سال سے اسرائیل کی عسکری طاقت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ پاکستانی فوج نے 1971ء میں دو ہفتے کی جنگ کے بعد بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے مگر حماس نے ایک سال گزرنے کے باوجود آج تک اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔
اقبال نے کہا ہے:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
٭
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
سوویت یونین کے خلاف مجاہدین نے امریکا کے خلاف طالبان اور اسرائیل کے خلاف حماس نے اقبال کے ان شعروں کو ’’شاعری‘‘ کے مقام سے اٹھا کر ’’حقیقت‘‘ کے مقام پر فائز کر دیا ہے۔ نظریے کا کمال اسی کو کہتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلم دنیا کی فوجیں ’’عسکری بزدلوں‘‘ کا منظر پیش کر رہی ہیں اس لیے کہ ان کے پاس نظریے کی طاقت نہیں ہے۔ یہ فوجیں امریکا، بھارت اور اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈالتی اور اپنی قوموں پر ہتھیار تانتی ہیں۔ یہ نظریہ تھا جس نے پاکستان خلق کیا اور یہ صرف نظریہ ہے جو پاکستان کو بچا سکتا ہے، فوج نہیں۔