عجیب اتفاق ہے

404

عجیب اتفاق ہے کہ آمریت کو للکارنے والے سیاسی راہنمائوں میں پانچ نام ایسے ہیں جن کی وفات ستمبر میں ہوئی، مولانا موددی، نواب زادہ نصراللہ خان اور چودھری ظہور الٰہی اور عالمی سطح پر سید علی گیلانی، شاہ فیصل کی وفات ستمبر میں ہوئی، یہ نام اور تاریخی کردار ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہیں اسی ہفتے نواب زادہ نصراللہ خان کی برسی ہے۔ وہ کیا کمال شخصیت تھے۔ قومی کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے، کشمیری مجاہدین اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے تھے انہوں نے کیا جمہوریت کے لیے نوابزادہ نصر اللہ خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، وہ ان چند سیاست دانوں میں سے ہیں جو حقیقی معنوں میں کسی بھی دور میں نہ بکے اور نہ جھکے۔

جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں
کل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی
آج بھی پیش بتاں نامِ خدا کہتے ہیں
یوں تو محفل سے تیری اٹھ گئے سب دل والے
ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا، کہتے ہیں

1951ء کے بعد ملک میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے نوابزادہ نصراللہ خان کا ان کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ضرور رہا، انہیں سب سے زیادہ شہرت ایوب خان کے دور میں اس وقت ملی جب انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے قربانیاں دیں اور ان پر بغاوت کا مقدمہ بنا، اس وقت جب دوسرے سیاستدان ہمت ہار بیٹھے تھے یہ مردِ قلندر میدان عمل میں ڈٹا رہا اور ایوب خان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال بِیت چکے ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان 13 نومبر 1916ء کو مظفرگڑھ کے قصبے خان گڑھ میں پیدا ہوئے، ان کے والد نوابزادہ سیف اللہ خان دفعہ 30 کے مجسٹریٹ تھے، نصراللہ خان ابھی چھے برس ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، انہوں نے ایچیسن کالج لاہور سے ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں گریجویشن کے لیے داخلہ لیا لیکن شادی کے باعث انہیں کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ وہ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے، سیاست انہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے شروع کی، قیام پاکستان سے قبل 27 یا 28 سال کی عمر ہی میں وہ اس کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ 1950ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، بعدازاں اختلافات کی بنا پر مسلم لیگ سے استعفا دے دیا اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر عوامی لیگ قائم کی، نوابزادہ نصر اللہ خان 1962ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور انہوں نے 1962ء ہی میں حزب اختلاف کا اتحاد ’’نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘ تشکیل دے دیا، 1964ء میں متحدہ حزب اختلاف (سی او پی) کے نام سے ایک تیسرا بڑا سیاسی اتحاد معرض وجود میں آیا۔مارشل لا کے نفاذ کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا یہ دوسرا بڑا اتحاد تھا جس کے قیام کا موقع ایوب خان نے صدارتی انتخاب کا اعلان کر کے فراہم کیا تھا، تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول کونسل مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی اور عوامی لیگ نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کر دیا، ابتدا میں سی او پی کے رہنما ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار کھڑا کرنے کے معاملے میں اختلافات کا شکار ہوگئے تاہم فاطمہ جنا ح کے نام پر کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے محترمہ فاطمہ جناح سے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی، پہلے انہوں نے انکار کیا مگر بعد ازاں انہوں نے آمادگی ظاہر کر دی، نوابزادہ نصراللہ خان نے فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا، سی او پی کو قوی یقین تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح الیکشن جیت جائیں گی، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ کو شکست ہوگی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف 1967ء میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ تشکیل دیا، انہوں نے حزب اختلاف کا کردار ادا کیا، نوابزادہ نصراللہ خان کو اپنی سیاسی زندگی میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں، کئی مرتبہ جیلوں میں گئے اور متعدد بار نظر بند رہے۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران اپنے آبائی گھر خان گڑھ میں نظر بند ہونے کے باوجود ملکی سیاسی صورتحال پر پوری طرح نظر رکھے رہتے، جنرل ضیاء الحق کے عہد مارشل لا میں جس نظم کے چرچے ہوئے اور ملک بھر میں اس کی فوٹو کاپیاں تقسیم کی گئیں وہ یہ ہے۔

اتنے بے درد ہیں کہ صر صر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں

نوابزادہ نصر اللہ خان نے 1988ء اور 1993ء کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا، انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 18 سیاسی اتحاد بنائے، جن میں پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی، این ڈی اے، اے آر ڈی، اے پی سی اور دیگر سیاسی اتحاد شامل ہیں، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے اے آر ڈی کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا نوابزادہ نصر اللہ خان مسلح افواج کے سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ کسی بھی آئینی کردار کے خلاف تھے، ان کی جمہوریت کے فروغ کے لیے خدمات قابل تحسین ہیں۔ 26 اور 27 ستمبر 2003ء کی درمیانی رات وہ خالق ِ حقیقی سے جا ملے، انہیں ان کے آبائی قبرستان خان گڑھ میں سپرد خاک کیا گیا، اس وقت ملک میں جو سیاسی افراتفری پھیلی ہوئی ہے، ان حالات میں اگر وہ زندہ ہوتے تو ملک میں سیاسی امن و امان قائم کرنے کے لیے ضرور اپنا کردار ادا کرتے۔