کراچی (رپورٹ:قاضی جاوید)ڈاکٹر مریم چغتائی ماہرتعلیم نے جسارت کے سوال نے جسارت کے سوال ہمارے تعلیمی ادارے تخلیقی ذہن کیوں پیدا نہیں کر رہے؟کے جواب میں کہا کہ “بنیادی طور پر اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ پرائمری یا ابتدائی تعلیم سے لیکر ہائیر ایجوکیشن تک کے معیاری نصاب اور نظام کی ہر وقت اور ضرورت کے مطابق فراہمی اور امتحانات کے انتظامات محکمہ تعلیم کی بنیادی ذمہ دار ی ہے مگر گزشتہ چند دہائیوں سے محکمہ تعلیم کے حوالے سے کچھ ایسے معاملات اور احکامات جاری ہوتے نظر آئے ہیں جن سے قوم کے ہونہار طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ اگر دنیا کی تاریخ کو پڑھا جائے تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں انہی لوگوں نے ترقی اور عزت پائی ہے جنہوں نے تعلیم کو اہمت دی ہے اور تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سرِفہرست رکھا ہے۔لہٰذااس بات سے کسی بھی صورت انکار ممکن نہیں کہ پڑھی لکھی قوم ہی ترقی اور استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔ لیکن ہم یہاں ہر شعبہ کے چند بنیادی مسائل کا ذکر کریں گے۔سرکاری اسکولوں کے نصاب کو اگر دیکھا جائے تو یوں لگے گا جیسے آپ 1960ء کی دہائی میں علم کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں جبکہ آ ج کا دور بل گیٹس اور سٹیو جانبر کے دور میں داخل ہو چکا ہے آج کمپیوٹر ،آئی فون ، ڈیجیٹل لائبریری، ملٹی میڈیا اور ای لائبریری کے بغیر تعلیم ممکن نہیں۔ہمارے سرکاری اسکول آج بھی اِن سہولتوں سے صدیوں دور ہیں۔ ہمارے دیہاتوں اور قصبوں کے اسکولو ں کے بچے بل گیٹس ،اسٹیفن ہائیکنگ، کمپیوٹر ،آئی فون،جیسی چیزوں کے نام تک سے واقف نہیں ہیں اور اس جدید دور میں بھی الف انار اور ب بکری سے آگے نہیں پڑ ھ سکے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سرکاری ا سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے نوجوان ڈگریاں ہونے کے باوجود بے روزگار رہتے ہیں۔جبکہ پرائیویٹ اداروں سے جدید تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو یورپ، امریکا اور عرب ریاستوں میں بھاری تنخواہ پر نوکری مل جاتی ہے۔یوں ملک میں اک خلا پیدا ہو رہا ہے۔یہ غریب نوجوان نوکری تو چاھتے ہیں لیکن اِن میں جدید زمانے کی نوکری کی اہلیت نہیں ہوتی۔یہ مایوسی ہمیں خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتی ہے۔بلکہ دیکھاجائے تو پڑھے لکھے نوجوانوں کی جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد اعظم نے جسارت کے سوال” ہمارے تعلیمی ادارے تخلیقی ذہن کیوں پیدا نہیں کر رہے؟کے جواب میں کہا کہ اس میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو “تخلیقی ذہن”کے بجائے پیسہ کمانے والی مشین بنانے کی کو شش کر تے ہیں اسی وجہ سے بے مقصد علم حاصل کر نے کی کو شش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل کی شروعات ہی فلسفے سے ہوتی ہے لیکن کسی بھی علم کا فلسفہ نہیں پرھایا جارہا ہے ۔اس میں سائنس اورآرٹ کے مضامین کے پی ایچ ڈی بھی شامل ہیں۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ پروفیسر اسٹنٹ پروفیسر کی مستقل نوکری سے وزیٹنگ فیکلٹی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے ۔ یونیورسٹی کے ریکٹر نے پروفیسرز کو یونیورسٹی سے باہر ’غیر نصابی سرگرمیوں‘ کے بارے میں بات کر تے اور انھیں تنبیہ کرتے ہیں کہ ایسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی یا اس کی ساکھ کو کسی نوعیت کا نقصان پہنچے۔ ان حالات میں استاد تخلیقی ذہن سے خود عاری ہو جاتا ہیں تو وہ تخلیقی ذہن کے اسکالرز کیسے پید کر سکتا ہے۔لکھنا اورپڑھانا میں کوئی غیر قانونی بات نہیں ہے اور دیکھا جائے تو بات کرنے کا اختیار ہر شخص کو آئینی طور پر ہے۔ جب آپ کسی استاد کو بولنے نہیں دیں گے تو طالبعلم بھی انھیں سن نہیں سکیں گے اور اس کا اثر دوسروں پر ہوتا ہے۔ جس کے بعد باقی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنی روزی روٹی چلانی ہے اس لیے وہ بھی پھر خاموشی سے اپنا کام کیے جاؤاور بس ۔ڈاکٹر افضل نے جسارت کے سوال ہمارے تعلیمی ادارے تخلیقی ذہن کیوں پیدا نہیں کر رہے؟کے جواب میں کہا کہ ا س میں ایک بڑی وجہ اداروں کا خوف بھی ہے۔ ہر بچہ جس کو اسکول میں داخلہ ملتا ہے اس کے والدین اور دیگر احباب کی خواہش ہو تی ہے کہ اس کا بچہ بڑھ لکھ کر خوب مال کمائے جس کی وجہ سے علم کے بجا ئے بچے میں دولت سے محبت اُبھر کر سامنے آتی ہے پرائمری اسکول میں داخل ہو نے والے بچے میں خوف پیدا کیا گیا تھا کہ اساتذہ اسکول میں بہت مارتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک چھوٹا بچہ وہاں کیا پوچھے گا جب اس کو پتہ ہوگا کہ مجھے مار پڑنی ہے۔ اور یہ روایت ابھی بھی اسکولوںؓ میں موجود ہے۔اگر ہمیں اپنی نسلوں کو تخلیق کار دیکھنا ہے کہ وہ بھی دوسرے اقوام کی طرح تخلیق کریں اور سائنس و اداب میں نام پیدا کریں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام بالخصوص امتحانی نظام پر کام کرنا ہوگا۔خدانخواستہ، اگر ہم ایسا کچھ نہیں کرپاتے اور اپنے طلبہ کو ایک اچھا تعلیمی نظام نہیں دیتے تو ہم پی۔ایچ۔ڈی ڈاکٹر تو پیدا کرتے رہیں گے لیکن وہ ایک سوال پیدا کرنے کے بھی قابل نہیں رہیں گے ،اس کے علاوہ امتحانی ادارے (امتحانی بورڈ) بچے کو رٹی رٹائی چیزوں کے لئے چیک کرتے ہیں اور اسی پر اساتذہ و اداروں کو سزائیں و جزائیں ملتی ہیں تو لازم ہے کہ اسی امتحان کے لئے بچوں کو تیار کیا جائے گا۔اگر ہم پاکستان کے نظامِ تعلیم کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوگا یہ نظام بہت سے مسائل اور خرابیوں کا شکار ہے۔اگر ہم تفصیل میں جائیں تو معلوم پڑے گا کہ تعلیمی نظام دہرے معیار کے ساتھ ساتھ پرائمری، مڈل، سیکینڈری ،انٹرمیڈیٹ اور ہائر ایجوکیشن، ہر سطح پر مسائل کا شکار ہے۔اور ان سب مراحل پر سیر حاصل بحث اور غوروفکر کی ضرورت ہے۔ عرفان علی عابد آ پ نے سوال کیا ہے کہ ہماری جامعات میں تحقیق کیوں نہیں ہورہی۔؟ حقیقت یہ ہے کہ جامعات میں ہر سطح پر تحقیق ہورہی ہے لیکن زیادہ تر تحقیق علمی سطح پر ہورہی ہے۔ زیادہ ترین طلبہ ماسٹر ڈگری سے لے کر پی ایچ ڈی تک ڈگری کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں اور رجسٹرڈ ہیں۔ لیکن اعلیٰ سطح کی ریسرچ اعلی تکنیکی شعبوں میں حکومت کی گرانٹس کے بغیر ممکن نہیں۔ گزشتہ عشروں میں سیاسی حکومتیں رہی ہوں یا فوجی کسی نے تعلیم کو موزوں اہمیت نہیں۔ پاکستان اپنے بجٹ میں تعلیم پر اعشاریہ 28۔ فی صد مختص کرتا ہے۔جامعات کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہوتے کہ وہ تنخواہیں دے سکیں۔ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ملکوں میں ایک ایک یونیورسٹی کا بجٹ ہمارے ملکی بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ بنگلا دیش جب آزاد ہوا تو ان کا تعلیمی بجٹ بڑھ کر دس گنا ہوگیا۔ بہت سے اسلامی ملکوں کا تعلیمی بجٹ پاکستان سے کئی گنا ہے۔