اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک)عدالت عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا۔ذرائع کے مطابق عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈپروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا تھا، جسٹس منصورعلی شاہ نے خط لکھ کر صدارتی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور جسٹس منیب اختر کے کمیٹی سے اخراج پر بھی سوال اٹھایا تھا۔ذرائع کا بتانا ہے کہ جسٹس منصورعلی شاہ کے خط پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے جوابی خط میں لکھا کہ جسٹس شاہ آپ نے حقائق جانے بغیر الزام عاید کیا کہ میں نے جسٹس یحییٰ آفریدی، دوسرے سینئر جج کو بائی پاس کیا، جسٹس آفریدی کو اگر کوئی ججز کمیٹی کا رکن نہیں بنانا چاہتا تو وہ جسٹس منیب اختر ہیں۔چیف جسٹس نے لکھا کہ 20 ستمبر کو کمیٹی اجلاس سے متعلق جسٹس یحییٰ آفریدی سے رابطے کی کوشش کی گئی، ان کی عدم دستیابی پر جسٹس امین سے درخواست کی تو انہوں نے لاہور روانگی ملتوی کردی۔چیف جسٹس نے لکھا کہ جسٹس منصور، آپ نے کمیٹی میں عدم شرکت کے لیے چیف جسٹس آفس کو مطلع نہیں کیا، آپ کی عدم شرکت کے باعث کمیٹی کا جمعے کا اجلاس ملتوی کرنا پڑا، 2 دن بعد آپ نے لکھا آپ کے الٹی میٹم پرعمل ہونے تک کمیٹی میں نہیں آئیں گے،کل جسٹس منصو ر آپ کی موجودگی میں جسٹس یحییٰ سے کمیٹی میں شرکت کاکہا،جسٹس آفریدی نے کہا کہ وہ ججز کمیٹی میں نہیں بیٹھنا چاہتے۔ذرائع کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس منیب اختر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل نہ کرنے کی 11 وجوہات بتائیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے جواب میں لکھا کہ جسٹس منیب اختر کا سینئر ججز سے رویہ انتہائی سخت تھا، ایسا جسٹس منصور آپ کے اصرار پر کیا گیا، قانوناً آپ اس بات پر سوال نہیں اٹھاسکتے کہ چیف جسٹس کس جج کو کمیٹی میں شامل کرے، میں ہمیشہ احتساب اور شفافیت کا داعی رہا ہوں، جسٹس منیب اختر کو کمیٹی میں شامل نہ کرنے کی آپ کو وجوہات بتا رہا ہوں۔چیف جسٹس نے اپنے خط میں لکھا کہ جسٹس منصور قانوناً آپ یہ بھی نہیں پوچھ سکتے میں تیسرا رکن کسے نامزد کروں کسے نا کروں، تاہم، چونکہ میں ہمیشہ احتساب اور شفافیت کی حمایت کرتا رہا ہوں، میں وجوہات فراہم کروں گا، میں وجوہات فراہم کروں گا کہ جسٹس منیب اختر کو کیوں تبدیل کیا گیا، یہ یاد رہے کہ میں یہ آپ کے اصرار پر کر رہا ہوں تاکہ کوئی ناراض نہ ہو جائے۔قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور کو اپنے جوابی خط میں لکھا کہ جسٹس منیب اخترنے پریکیٹس اینڈپروسیجرقانون کی سخت مخالفت کی تھی، جسٹس منیب ان 2 ججوں میں تھے جنہوں نے گرمیوں کی پوری تعطیلات کیں، مقدمات کے بوجھ سے لاپروا ہوکرگرمیوں کی پوری تعطیلات کیں، جسٹس منیب تعطیلات کے دوران عدالت کا کام کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھے، تعطیلات پر ہونے کے باوجود انہوں نے کمیٹی میٹنگز میں شرکت پر اصرار کیا، جو کہ اگلے سینئر جج جسٹس یحییٰ پر ان کا عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے۔ اپنے خط میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کہتاہے کہ ارجنٹ مقدمات 14 روز میں سماعت کے لیے مقرر ہوں گے، جسٹس منیب اختر نے درخواست گزاروں کے آئینی اور قانونی حق کے برخلاف ارجنٹ آئینی مقدمات سننے سے انکار کیااور چھٹیوں کو فوقیت دی، عدالت عظمیٰ کی روایت کے برعکس اپنے سینئر ججوں (ایڈہاک ججز)کا احترام نہ کیا، سینئرججز (ایڈہاک ججز)کو ایسے 1100مقدمات کی سماعت تک ہی محدود کردیا، ایڈہاک ججز کو شریعت ایپلٹ بینچ کے مقدمات بھی سننے نہیں دیے گئے۔چیف جسٹس نے لکھا کہ جسٹس منیب اختر نے کمیٹی کے ایک معزز رکن سے غیر شائستہ، درشت اورنامناسب رویہ اختیارکیا جس میں تمام چیف جسٹسز شامل تھے اور سینئر ترین جج بھی اس کا حصہ تھے، جسٹس منیب اختر محض عبوری حکم جاری کرکے 11 بجے تک کام کرتے ہیں، جسٹس منیب اختر کے ساتھی ججوں نے ان کے اس رویے کی شکایت کی، آڈیولیک کیس پرحکم امتناع جاری کرکے وہ کیس سماعت کے لیے مقرر ہی نہ کرنے دیا گیا۔