لبنان لہو لہو

363

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے لبنان پر خوفناک بمباری کرکے پانچ سو سے زائد لبنانی مسلمانوں کو شہید کردیا ہے اور ہزاروں افراد شدید زخمی ہوگئے ہیں درجنوں زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ پیر کے روز اسرائیل نے اپنی سفاکیت اور ظلم کی انتہا کرتے ہوئے لبنان کے شہر نبطیہ پر 80 سے زائد فضائی حملے کیے لبنان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں اسرائیل کی فوج نے آدھے گھنٹے تک جنگی جہازوں کے ذریعے اندھا دھند بم برسائے اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ الجبل، عیترون، حولہ، طیبہ، مرکبا، بنی حیان، جبل الریحان، اقلیم التفاح الطیری کے پہاڑی علاقوں، بنت جبیل، حنین، زوطر اور جنوبی لبنان میں نبطیہ کے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جنوبی لبنان میں فضائی حملوں سے قبل لوگوں کو موبائل فون پر پیغامات موصول ہوئے جس میں انہیں خبردار کیا گیا کہ وہ ان رہائشی علاقوں سے دور رہے جنہیں حزب اللہ ہتھیار چھپانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مشرق وسطی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اسرائیل حزب اللہ تنازع پورے خطے کے امن کو تباہ کرسکتا ہے۔ اس سے قبل اسرائیل نے جس طرح سے غزہ میں ظلم اور درندگی قائم کی ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ گزشتہ برس سات اکتوبر سے اہل فلسطین حالت ِ جنگ میں ہیں اور اب تک تقریباً 45 ہزار سے زائد نہتے فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، جنرل اسمبلی کی قرار دادوں کے باوجود اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں بالخصوص معصوم بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور مارا جا رہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل لبنان کے نواحی علاقوں بیروت میں پیجرز اور واکی ٹاکی ڈیوائس کے ذریعے اسرائیل نے دھماکے کیے جس میں 27 افراد شہید اور تین ہزار سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔ پیجر دھماکوں میں ایرانی سفیر بھی شدید زخمی ہوئے اور ان کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی ہے۔ لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ پیجرز دھماکا خیز مواد اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے نصب کیا تھا اور بیروت کے یہ نواحی علاقے حزب اللہ کے مضبوط گڑھ مانے جاتے ہیں۔

اسرائیل کا یہ ظلم اور وحشت عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے کوئی بھی عالمی ادارہ اسرائیل کی باز پرس اور احتساب نہیں کرسکتا اور اسے مسلمانوں پر ظلم و درندگی ڈھانے کے لیے کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ اس سے قبل اسرائیل کی فوج اور خفیہ تنظیم نے ایران میں حماس کے سربراہ اور فلسطین کے سابق وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کو میزائل حملے میں شہید کردیا تھا اور اب لبنان میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حملے پوری دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے امن کو تباہ کرنے کی خطرناک سازش ہے۔ موساد کی اس دہشت گردی کا نوٹس نہ لیا گیا اور اس لہر کو نہ روکا گیا تو دنیا میں ایک نیا المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نہتے لوگوں پر حملہ آور ہیں اور دنیا کو آگ اور خون کی دلدل میں دکھیلنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کو انسانیت کی خدمت کے بجائے دہشت گردی میں استعمال کررہا ہے اور اسرائیل کا یہ عمل عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل نے غزہ سے لیکر لبنان تک ظلم وستم کی ایک تاریخ رقم کی ہے اور وہ انسانیت کا قتل عام کر کے مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ عالمی اداروں بالخصوص او آئی سی کو اس نازک مسئلے پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ خدانخواستہ یہ آگ اگر پھیل گئی تو پھر دنیا کو تباہی اور بربادی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ لبنان اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کو امریکا نے مکمل جنگ کی طرف جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جبکہ لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے کہا کہ لبنان اسرائیل کشیدگی تباہ کن ثابت ہوگی دونوں ممالک جنگ کے قریب ہیں۔ ایسے حالات میں مشرق وسطیٰ ایک تباہ کن آگ کی جانب گامزن ہے۔

اسرائیلی عوام بھی مسلسل جنگ وجدل سے تنگ آچکے ہیں اور بڑی تعداد میں وہ اسرائیل چھوڑ کر دیگر ممالک میں منتقل ہورہے ہیں رواں سال کے پہلے سات مہینوں میں پچاس ہزار سے زائد اسرائیلی دیگر ممالک میں منتقل ہوئے ہیں اور اسرائیلیوں کی نقل مکانی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے خلاف ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں غزہ اور فلسطینی علاقوں سے قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ قرار داد پاکستان اور ترکیہ کی مشترکہ کاوش سے پیش کی گئی جس میں 124 ممالک نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 14 ممالک نے مخالفت کی 43 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

کئی دہائیوں قبل کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اقوام متحدہ نے قرار دادیں پاس کی تھی لیکن اب تک ان پر عمل نہیں کیا جاسکا اور آج بھی بھارت نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور ڈھٹائی کے ساتھ کشمیریوں پر مسلط ہے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو مسلسل کچل رہا ہے ایسے حالات میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرار داد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عالمی اداروں اور طاقتوں نے اسرائیل کو ناقابل احتساب قرار دیا ہے اس لیے اسرائیل دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کو پھیلانا چا رہا ہے وہ غزہ جنگ کو پھیلا کر پوری فلسطینی سرزمین پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے اس لیے اس نے اب اپنی جنگ کو لبنان تک پھیلا دیا ہے جس کے مضمرات بہت ہولناک ہوں گے۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت میں گزشتہ دنوں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے اسی سلسلے کی کڑی ہے نہتے انسانوں کو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے ہلاک وزخمی کیے جانا سنگین دہشت گردی ہے۔

اسرائیل 7 اکتوبر کے بعد غزہ کے معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں کو مسلسل قتل کر رہا ہے اور اسپتالوں اور شیلٹر ہائوسز میں نشانہ بنایا جارہا ہے جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کا طبی عملہ بھی اس کا نشانہ بنا لیکن 7 اکتوبر سے شروع ہونے والے اس قتل عام اور جنگ وجدل کو ایک سال کا طویل عرصہ ہوا چاہتا ہے لیکن شاباش ہے غزہ کے عظیم مجاہدوں اور نہتے لوگوں کو جو کہ سینہ تان کر اسرائیل کے ظلم کے خلاف کھڑے ہیں اور اسرائیل کے ظلم وجبر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ودیگر عالمی ادارے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں امریکی سرپرستی کی وجہ سے اسرائیل کسی کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے اور وہ عالمی بد معاش اور غنڈے کا کردار ادا کر رہا ہے ایسے میں امت مسلمہ کہ 58 سے زائد اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں ورنہ لبنان کے بعد اب ان کی باری آنے والی ہے۔ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی اب کھل کر سامنے آگئی ہے اور یہ پالیسی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے ایسے حالات میں مسلم حکمرانو کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لبنان پر حملے کے خلاف او آئی سی کا اجلاس طلب کر کے اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو سبق سیکھایا جاسکتا ہے۔ مسلم حکمرانوں کو اب خواب غفلت سے بیدار ہونا پڑے گا ورنہ اسرائیل کے قدم اسی طرح آگے کی جانب بڑھتے رہے تو وہ خدانخواستہ خاکم بدہن وہ وقت دور نہیں جب داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔