وزیردفاع خواجہ آصف نے جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں سینئر صحافی حامد میر کے ایک سوال کے جواب میں جو کچھ کہا بھارت میں ایک طوفان کا باعث بن گیا۔ خواجہ آصف سے پوچھا گیا کہ کشمیر کے انتخابات میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے درمیان انتخابی اتحاد ہوگیا ہے اور ان کے انتخابی منشور میں آرٹیکل 370 کی بحالی شامل ہے پاکستان بھی یہی چاہتا ہے تو کیا اس معاملے پر آپ ایک صفحے پر ہیں۔ جس کے جواب میں خواجہ آصف نے تائیدی انداز میں کہا آرٹیکل 370 کی بحالی ممکن بھی ہے اور اس معاملے پر ہم ایک صفحے پر ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب مقبوضہ جموں وکشمیر میں دس سال بعد ریاستی انتخابات کا عمل شروع ہو چکا تھا اور اس بار کے انتخابات کئی حوالوں سے ماضی سے مختلف تھے۔ کیونکہ یہ دس برس بھارت نے انتخابات کے لیے کاریگری کرنے میں گزارے تھے۔ جب بھارت کو پوری طرح انتخابی منظر پر اپنی گرفت قائم ہونے کا یقین ہوا اور بائیکاٹ کرنے کی کال کو بھی حیرت انگیز طور پر مینج کرنے میں کامیابی ہوئی تو انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تھا۔
کشمیر میں حریت کانفرنس نہ سہی مگر پیپلز ریزسٹنس موومنٹ جیسی زیر زمین تنظیمیں اب بھی پریس ریلیز یا کسی کارروائی کے ذریعے اپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں۔ اس کے باوجود ایسی کسی تنظیم نے بھی ماضی کے قطعی برعکس انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل نہیں کی۔ جس سے صاف اندازہ ہورہا ہے کہ بھارت نے اندرون کشمیر ہی نہیں بلکہ باہر بھی اس عمل کو یقینی بنایا تھا کہ انتخابی عمل میں کوئی بڑی رکاوٹ کھڑی نہ ہو اور عوام کسی قسم کے خوف کا شکار نہ ہوں۔ ایسے میں انجینئر رشید اور مصنوعی قسم کے جماعت اسلامی فیکٹر کو اچانک منظر پر اُبھارا گیا اور بھارتی میڈیا اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا تھا۔ یہ فیکٹر کشمیر کے حریت پسند مزاج اور طبقے کو غیر محسوس طریقے سے انتخابی دھارے کی طرف لارہا تھا۔ جس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ اسلام آباد کے حلقوں کی نیک تمنائیں انتخابی سیاست کے اس دھارے کو حاصل ہیں۔ ایسے میں خواجہ آصف کے بیان نے کشمیر کے ماحول اور منظر پر ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ گودی میڈیا نے اس بیان کا حوالہ دے کر یہ دُہائی دینا شروع کر دی کہ پاکستان کشمیر میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی حمایت کر رہا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو بھی پاکستان نواز ہونے کا الزام دے کر ایک ہنگامہ برپا کر دیا گیا۔ ارنب گوسوامی جیسے ٹی وی اینکرز جو گودی میڈیا کی پہچان ہیں اس موضوع پر گرما گرم بحث کرنے لگے اور ان میں مباحثوں میں پاکستان سے بھی لوگوں کو شریک کیا جانے لگا۔ اس بحث کے ذریعے ماحول کو اس قدر گرما دیا گیا کہ عمر عبداللہ کو کہنا پڑا کہ پاکستان ہماری فکر کرنے کے بجائے اپنے معاملات پر توجہ دے۔ نریندرمودی نے بھی سری نگر کے انتخابی جلسے میں اسی بیان کا حوالہ دے کر کہا کہ آج پاکستان سے بھی کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی حمایت میں آواز بلند ہو رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دوسرے لیڈروں میں نے بھی جموں کے علاقوں میں یہ سودا جم کر بیچا کہ پاکستان کانگریس اور نیشنل کانفرنس اتحاد کی حمایت کر رہا ہے۔ اس بیان سے وادی ٔ کشمیر کے لوگوں کا یہ ابہام کسی حد تک دور ہوا کہ اسلام آباد کی حمایت انجینئر رشید فیکٹر کو حاصل ہے۔ گوکہ آج پاکستان کشمیر کی زمینی صورت حال سے بڑی حد تک لاتعلق اور الگ تھلگ ہوگیا ہے اس کے باوجود پاکستان وادی کی عوامی سیاست اور زندگی میں اہم ہے۔
عوام کا ایک بڑا طبقہ پاکستان کے رجحانات کو دیکھتا ہے۔ ایک بڑی تعداد کا بادنما پاکستان میں ہے۔ اسی پہلو کو دیکھتے ہوئے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی جماعتوں نے بھی اپنے انتخابی منشور میں پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کا ماحول بنانے کا نکتہ شامل کر رکھا ہے۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان کا نام اور رجحان کشمیر کے عام آدمی کے لیے بدستور اہمیت رکھتا ہے۔ کبھی شیخ عبداللہ کے ساتھی جیب سے پاکستانی نمک اور سبز رومال نکال کر عوامی جذبات کے دھارے سے فائدہ اُٹھاتے ہیں تو کبھی کنٹرول لائن پر چلنے والی بس کی افتتاحی تقریب میں محبوبہ مفتی سبز لباس پہن کر ان کے جذبات کے تار چھڑتی ہیں۔ اسی طرح خواجہ آصف کا بیان وادی کشمیر کی سیاست میں پاکستان کی خواہش کی عکاسی کر گیا اور عین ممکن ہے کہ انتخابی میدان میں اس کا فائدہ نیشنل کانفرنس کو ہوجائے۔ اس کا پہلا نتیجہ تو اس وقت سامنے آیا جب جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے انتخابی مہم ختم ہونے کے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو سراہتے ہوئے انتخابی عمل سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ پریس ریلیز کے ذریعے کہا گیا کہ کشمیر ی بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرف سے کشمیریوں کو بے اختیار بنانے اور ڈی اسلامائزیشن کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے متحد ہوجائیں۔ ہم اپنے زمینی کیڈر کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کے خود ساختہ پینل کے جھانسے میں نہیں پھنسے۔ یوں جماعت اسلامی نے خود کو اپنے نام پر الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں سے الگ کر دیا۔ اس طرح کئی ایسے امیدواروں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی جو خود کو جماعت اسلامی کا نمائندہ قرار دے کر انتخابی ماحول کو اچھا خاصا گرما چکے تھے۔
کولگام اور پلوامہ حلقوں میں یہ امیدوار زوردار انتخابی مہم بھی چلا چکے تھے۔ وادی میں اس انداز کے نتائج دینے کے باوجود خواجہ آصف کا بیان جموں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی دم توڑتی ہوئی سیاست کے لیے آکسیجن ٹینٹ کا کام دے سکتا ہے کیونکہ گودی میڈیا نے بھرپور مہم چلا کر جموں میں ہندو ووٹر کے بی جے پی کی حمایت میں ماند پڑنے والے جذبات کو زندہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس سے پہلے سرویز یہ بتا رہے تھے کہ جموں کی بیس نشستوں پر کانگریس بی جے پی کو پیچھے چھوڑ رہی ہے اور ماضی کے انتخابات کے برعکس اس بار بی جے پی انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ بھارتی میڈیا نے خواجہ آصف کے بیان کو اس ساری صورت حال کو بدلنے کے لیے استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔