امریکا میں صدارتی انتخابی مہم زور پکڑتی جارہی ہے۔ پولنگ میں اب ایک ماہ اور دس دن رہ گئے ہیں۔ دونوں مرکزی امیدوار ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور اپنی پوزیشن زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ حتمی نتائج کیا ہوں گے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن کمزور پڑتی جارہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بالآخر وہ اعلان کر ہی دیا جس کا بہت سوں کو شدت انتظار تھا۔ اْن کا کہنا ہے کہ اگر میں الیکشن ہار گیا تو پھر کبھی انتخابی دوڑ میں حصہ نہیں لوں گا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کو ایسی قیادت درکار ہے جو مضبوط اعصاب کی مالک ہو، تیزی سے فیصلے کرسکتی ہو اور پالیسیوں میں توازن پیدا کرنے کی بھی اہل ہو۔ ٹرمپ نے غیر معمولی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا علاقائی اور عالمی سیاست میں الجھتا جارہا ہے۔ اْس کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ وہ واحد سپر پاور ہے۔ دنیا بھر میں جو کچھ بھی الٹا سیدھا ہوتا ہے اْس کے لیے امریکا پر الزام دھرنا اب معمول سا بن چکا ہے۔ امریکا کے لیے اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا کرنا لازم ہوگیا۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ صدارتی انتخاب میں شکست ہوئی تو اِسے عوام کا فیصلہ سمجھ کر قبول کروں گا۔ چند ریاستوں میں مسابقت بہت زیادہ پریشان کن ہے۔ ایسی ریاستوں کو سیاسی اصطلاح میں سوئنگ اسٹیٹس کہا جاتا ہے یعنی کسی بھی وقت کسی کا بھی پلڑا بھاری ہوسکتا ہے۔ امریکا کی سوئنگ اسٹیٹس میں کملا ہیرس کو ٹرمپ پر برتری حاصل ہے اور اْن کا مثبت بیانیہ لوگوں کو بہت پسند آیا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ سابق امریکی صدر کے لہجے سے پژمردگی جھلک رہی ہے۔ بڑھک مارنے کی عادت اْنہیں لے ڈوبی ہے۔ امریکی ووٹرز کو لْبھانے کے لیے انہوں نے تارکین ِ وطن کے خلاف نفرت کی سطح بلند کرنے کی کوشش کی مگر اس محاذ پر بھی اْنہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ دوسری طرف ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی مقبولیت کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ امریکا کی نائب صدر نے اپنے حریف پر برتری محض برقرار نہیں رکھی ہے بلکہ اْس میں اضافے کی راہ بھی ہموار کرتی جارہی ہیں۔ کملا ہیرس نے ٹرمپ کو ایک اور صدارتی مباحثے کی دعوت دی ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے بتاتے ہیں کہ بیش تر ریاستوں میں کملا ہیرس کی پوزیشن بہت مضبوط ہے اور وہ ٹرمپ پر کئی پوائنٹس کی برتری لیے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ 40 فی صد ووٹرز کے فیورٹ ہیں جبکہ کملا ہیرس کو 48 فی صد ووٹرز پسندیدہ قرار دے رہے ہیں۔ این بی سی نیوز کے سروے میں کملا ہیرس کو ٹرمپ پر 5 پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ سروے میں ایک ہزار رجسٹرڈ ووٹرز سے رائے طلب کی گئی۔ سی بی ایس نیوز کے سروے میں کملا ہیرس کو 52 فی صد رجسٹرڈ ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ شش و پنج میں مبتلا ووٹرز کملا ہیرس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں کے بارے میں کْھل کر بتائیں تاکہ قوم کو اندازہ ہو کہ اگر وہ نومبر میں صدر منتخب ہوتی ہیں تو قومی معیشت کو کس طور چلائیں گی۔ کملا ہیرس اِسی ہفتے معیشت کی بحالی سے متعلق اپنی پالیسیاں منظر ِعام پر لانے والی ہیں۔
امریکا دو راہے پر کھڑا ہے۔ اْس کی طاقت گھٹ رہی ہے۔ یورپ اپنی راہیں بہت حد تک الگ کرچکا ہے۔ چین سے بھرپور مسابقت کا سامنا ہے۔ اس معاملے میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے مگر ایسا نہیں ہو پارہا۔ امریکی قیادت بار بار پھسل جاتی ہے اور اوٹ پٹانگ حرکتوں پر تْل جاتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت میں ایسی پالیسیاں اپنائیں جن سے امریکا کے لیے مشکلات بڑھ گئیں۔ چین کا سامنا کرنے کے حوالے سے بے ڈھنگی پالیسیاں اپنانے کے نتیجے میں امریکا کو تو کچھ خاص فائدہ نہ پہنچا مگر ہاں چین کے ساتھ ساتھ بھارت کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی۔ چین کو نیچا دکھانے کے لیے امریکا نے بھارت کی طرف جھک کر اْس کا بھی دماغ خراب کردیا ہے۔
اب یہ ناگزیر ہوچکا ہے کہ امریکا کی پالیسیوں میں توازن ہو، حقیقت پسندی ہو۔ آج کی دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ امریکا کے لیے کل تک آسانیاں تھیں، اب نہیں۔ مزید برتری کو تو ایک طرف رہنے دیجیے، اس کے لیے تو اپنی پوزیشن برقرار رکھنا بھی دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں قیادت بھی اْن لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو توازن کی راہ پر گامزن رہ سکتے ہوں۔ ری پبلکن پارٹی نے کم و بیش ڈھائی عشروں تک اپنی بے ڈھنگی سوچ سے امریکا ہی کو پریشان نہیں کیا بلکہ اْس کے ہاتھوں دوسروں کو بھی پریشان رکھا ہے۔
بارک اوباما کے آٹھ سالہ دور میں پالیسیوں کے حوالے سے جو توازن پیدا کیا گیا تھا وہ ری پبلکن پارٹی کے پلیٹ فارم پر منتخب ہوکر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹھکانے لگادیا۔ چین سے تجارتی جنگ نے شدت اختیار کی تو ٹرمپ نے بے ڈھنگے اقدامات کیے جن کے نتیجے میں چین کو تو کمزور نہ کیا جاسکا تاہم یورپ ضرور امریکا سے دور ہوگیا۔ اب امریکا کی قیادت کسی ایسی شخصیت کو سونپی نہیں جاسکتی جس کے فکر میں توازن نہ ہو، پالیسیاں بے ڈھنگی ہوں اور حکمت ِ عملی بے محل ہو۔ امریکا کو ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ میں دینا ایسی غلطی کے مترادف ہوگا جس کا ازالہ ممکن نہ ہوگا۔ امریکی ووٹرز کو اپنا ووٹ انتہائی دانش مندی سے استعمال کرکے امریکی پالیسیوں میں توازن پیدا کرنے والی قیادت کو ایوانِ صدر تک پہنچانا ہے۔
(گارجین، دی گلوبلسٹ)