انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے پر تعیش زندگی کے رحجان کو وبا بنادیا

256

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے پرتعیش زندگی کے رجحان کو وبا بنا دیا‘ مادیت اور مفاد پرستی نے عوام میں اسلامی تعلیمات کو فراموش کرکے آخرت کا خوف ختم کردیا‘ پُرتعیش زندگی کو نوجوانوں نے اپنا نصب العین بنا لیا‘ ٹیکنالوجی کا تعمیری استعمال نہیں ہو رہا‘ ذہنی و قلبی سکون نہ ہو تو زندگی دوزخ سے بدتر ہو جاتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی شعبہ ویژول اسٹڈیز میں لیکچرار ڈاکٹر شرف عالم، ویمن اسلامک لائرز فورم کی چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ، اسلامک اسکولز ایسوسی ایشن آف آسٹریلیا کے چیئرمین عبداللہ خان اور معروف معالج و سماجی رہنما ڈاکٹر ابو بکر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پر تعیش زندگی کا رجحان وبا کی طرح کیوں پھیل رہا ہے؟‘‘ڈاکٹر شرف عالم نے کہا کہ موجودہ دور میں پُرتعیش زندگی کو نوجوانوں نے اپنا نصب العین بنا لیا ہے‘ ضرورت نہ ہونے کے باوجود پیسے خرچ کرتے ہیں اور ہر قسم کی سہولت اور آسانی خریدنا چاہتے ہیں‘ آج اگر یہ کہا جائے کہ ہماری نوجوان نسل مادی اشیا کے حصول میں جنونی ہوتی جا رہی ہے تو بے جا نہ ہوگا‘ عیش پرستی مال و دولت کو تباہ کر دیتی ہے، عزائم اور ارادوں کو نمک کی طرح پانی میں حل کردیتی ہے، انسان کو خود پسند اور غافل بنا دیتی ہے، اسی لیے عیش پرست انسان مزے لینے کے لیے ہر طریقہ آزماتا ہے، حرام کام کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتا ہے اور آخر کار پوری قوم کو ترقی کے میدان میں تنزلی کا شکار ہونا پڑتا ہے اور آگے بڑھتے ہوئے قدموں کو رکنا پڑتا ہے، اس لیے کہ ارادے مضمحل ہو چکے ہیں اور توانائی صَرف کی جاچکی ہے‘ انسانی نفوس میں سرکشی اور حق ٹھکرانے کی بیماری لگ جاتی ہے، جیسے دلوں پر پردہ پڑ جاتا ہے‘ آج کے اس ترقی یافتہ دور نے بچوں کو بھی آرام پسند بنا دیا ہے‘ ہمارے بچے ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کرتے‘ کیا ایسے ادوار نہیں گزرے جہاں محض چھینی ہتھوڑی سے پہاڑوں کے دامن کو چیر کر راستے بنا لیے گئے‘ سمندر کے کلبلاتے پانی میں کمند ڈال کر اُس کے جگر میں گزرگاہیں بنا لی گئیں‘ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے لوگوں کے بلند حوصلوں کے آگے چٹانیں بھی سجدہ ریز ہوئیں لیکن افسوس! آج ہمارے بچے اُن ادوار کو قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا چکے ہیں‘ چٹکی میں ہونے والے کاموں نے ہماری طبیعت میں اتنی سستی پیدا کر دی ہے کہ اب دوبارہ جفا کشی کی طرف لوٹنا مشکل ہوگیا ہے‘ اب ہمیں ذرا سی زحمت بھی نا گوار گزرتی ہے‘ جمود زدہ زندگی اور ایسی زندگی جس میں کچھ کرنے کی، آگے بڑھنے کی چاہ نہ ہو اُسے مفلوج زندگی کہتے ہیں‘ ایسی زندگی کسی کام کی نہیں ہوتی چونکہ رواں دواں زندگی اور ایک کامیاب زندگی کے لیے رفتار ضروری ہے اِس لیے اگر رفتار کو زندگی کی کنجی مان لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اِس کا استعمال کرکے قسمت کے بند تالوں کو کھولاجاسکتا ہے لیکن اس کے لیے رفتار کی حد بندی ضروری ہے۔ طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں نمود و نمائش، بے جا اسراف اور مادی ترقی کی دوڑ کے تباہ کن معاشرتی اثرات ظاہر ہو رہے ہیں‘ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ناجائز اور حرام طریقوں سے آمدنی میں اضافہ کیا جاتا ہے‘ اس نمود و نمائش سے غریب، محروم اور تنگدست لوگوں کی دل شکنی ہوتی ہے جس سے مایوسی، حسد اور بغض جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں‘ بعض اوقات غریب طبقے کی مایوسی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ ناجائز طریقوں کی جانب گامزن ہو جاتا ہے‘ آج پاکستانی معاشرے میں ایک طرف ڈپریشن بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف کرپشن اور ناجائز طریقوں سے مال و اسباب میں اضافہ کیا جا رہا ہے‘ اس بیماری کی بنیاد نمود و نمائش اور فضول خرچی ہے۔ عبداللہ خان نے کہا کہ اصل میں عیش پرست افراد ہی معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں‘ ان کی وجہ سے متوقع اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے کیونکہ یہ لوگ صرف اپنے لیے جینا جانتے ہیں انہیں اپنی قوم و ملک کی کوئی پروا نہیں ہوتی، اسی لیے ترقیاتی کاموں میں حصہ نہیں لیتے اور نہ ہی ملک و قوم کے لیے کچھ پیش کرنے کے اہل ہوتے ہیں‘ عیش و عشرت کے لیے فضول خرچی سے نفسیاتی بیماریاں بھی پھیلتی ہیں جن میں بذدلی، خیانت، بخل ، اور رفاہِ عامہ کے لیے خرچ نہ کرنا قابل ذکر ہیں‘ فضول خرچی اور پُرتعیش زندگی گزارنے والوں کو بڑا ہی پرسکون سمجھا جاتا ہے لیکن جب انہیں کُرید کر دیکھا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے سینے میں لمبے چوڑے تفریحی پروگرام ہیں جن کی تکمیل نہ ہونے پر ان کی ہر سانس سے ناکامی اور افسوس کا اظہار ہوتا ہے۔ عیش و عشرت مال و دولت سے مشروط نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حلال دولت نیک آدمی کے لیے بہت بڑی نعمت ہے) اسی طرح آپؐ نے یہ بھی فرمایا: (کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو، فضول خرچی اور تکبر نہ کرو) ڈاکٹر ابو بکر نے کہا کہ نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ آج کا نوجوان ہر چیز کو مادی اعتبار سے دیکھ رہا ہے‘ مہنگا موبائل، نئے ماڈل کی گاڑی، پر تعیش زندگی کا خواہش مند ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بیش تر نوجوان ڈپریشن کا شکار اور بے سکون ہیں‘ ذہنی و قلبی سکون نہ ہو تو انسان کی زندگی دوزخ سے بدتر ہو جاتی ہے‘ پھر دولت، شہرت کچھ بھی کام نہیں آتی ہے۔ مادیت پرستی کی وجہ سے بیش ترنوجوان تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے آج کے تعلیم یافتہ نوجوان اپنے اصل مقاصد کو یکسر فراموش کرچکے ہیں‘ نوجوان نسل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے سحر میں اس قدر کھو گئی ہے کہ اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کو فراموش کر چکی ہے‘ اچھی تربیت، مثبت سرگرمیوں اور سہولتوں سے محروم نوجوانوں کے ہاتھ میں موبائل ،کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسے اوزار تھما دیے گئے ہیں، جن کا وہ تخریبی استعمال کر رہے ہیں‘ یعنی جدید ٹیکنالوجی کو تعمیری کاموں میں استعمال نہیں کر رہے‘ نوجوانوں میں بے حسی پروان چڑھ رہی ہے ، قوت ارادی ختم ہو رہی ہے‘ بدتمیزی اور بے باکی بڑھتی جا رہی ہے‘ عیش و عشرت سے محبت، تن آسانی کا رجحان ان میں بڑھتا جا رہا ہے‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ڈگری یافتہ نوجوان عملی زندگی میں بری طرح ناکام ہو رہے ہیں‘ آج کی نسل ایک ڈیجیٹل دور میں جی رہی ہے جو ایک کلک یا موبائل پر ہر چیز کا حصول چاہتی ہے جبکہ والدین ابھی تک پرانی اقدار و روایات کے حامل ہیں، اس وجہ سے والدین اور بچوں میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں‘ والدین بچوں کے رجحانات کو دیکھ کر خود کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہیں اور اولاد ان کے پرانے طور طریقوں اور روایات کو قبول کرنا نہیں چاہتی، نتیجتاً ہر گھر میں ایک باغی یا احساسات سے عاری بچہ جنم لے رہا ہے جن کی زندگی کا واحد مقصد صرف اور صرف اپنی خواہشات کی تسکین ہے‘ مادی نعمتوں اور آسائشوں کا تصور اس قدر غالب ہے کہ آخرت کا خوف ان میں ختم ہو چکا ہے۔ مفاد پرستی اور خود غرضی جنم لے رہی ہے‘ اسلام ہمیں سادہ اور تصنع سے پاک زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے اور تلقین کرتا ہے کہ تادم زیست صبر و استقلال کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔