ملتان : محمد نواز شریف یونیورسٹی آف ایگریکلچر (MNSUA) ملتان کو ایک طالبہ کی المناک موت کے بعد دو روز کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق 21 سالہ مناہل، جو پانچویں سمسٹر میں بائیوکیمسٹری کی طالبہ تھیں، پیر کے روز یونیورسٹی بس کی ٹکر سے جاں بحق ہو گئیں، جس کے بعد طلباء کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔
مناہل موٹرسائیکل پر سوار تھیں جب ان کا مخالف سمت سے آنے والی یونیورسٹی بس سے تصادم ہوا۔ حادثہ کیمپس کے اندر پیش آیا، اور مناہل موقع پر ہی دم توڑ گئیں۔ ریسکیو اہلکاروں نے ان کی لاش کو نشتر اسپتال منتقل کر دیا۔
حادثے کے بعد بڑی تعداد میں طلباء نے یونیورسٹی کے باہر احتجاج کیا اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے جوابدہی کا مطالبہ کیا۔ اس صورت حال میں یونیورسٹی انتظامیہ نے دو روز کے لیے کیمپس کو بند کر دیا تاکہ مناہل کی یاد میں تعزیت کا اظہار کیا جا سکے۔
یونیورسٹی کے ترجمان نے مناہل کی موت پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ احترام کے طور پر کیا گیا ہے۔ بس ڈرائیور عامر کو معطل کر دیا گیا ہے اور اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔
شاہ شمس پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او راؤ مہتاب کے مطابق، مناہل کے والد نے پولیس کو بتایا کہ وہ کوئی شکایت درج نہیں کروانا چاہتے، لیکن اگر درخواست موصول ہوئی تو پولیس تحقیقات کرے گی۔
یونیورسٹی کے ترجمان ریاض ہراج نے بتایا کہ حادثہ صبح 8:30 بجے پیش آیا۔ مناہل تیز رفتاری سے موٹرسائیکل چلا رہی تھیں اور بس دیکھ کر ان کا توازن بگڑ گیا، جس کے نتیجے میں وہ بس سے ٹکرا گئیں اور موقع پر ہی جاں بحق ہو گئیں۔
حادثے کی سی سی ٹی وی فوٹیج مناہل کے والدین کو دکھائی گئی، جس کے بعد ان کے والد نے تسلیم کیا کہ بس ڈرائیور کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مناہل ایک ماہ قبل بھی کینٹ کے علاقے میں موٹرسائیکل حادثے میں شدید زخمی ہوئی تھیں۔
یونیورسٹی کی بندش کے باوجود احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، اور طلباء انتظامیہ سے بہتر حفاظتی اقدامات اور جوابدہی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ سانحہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق، مناہل کی لاش تین گھنٹے تک دھوپ میں پڑی رہی، کیونکہ یونیورسٹی وائس چانسلر کے آنے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ مناہل کے والد، جو اپنی اکلوتی بیٹی کے صدمے سے دوچار تھے، نے ان کی لاش حوالے کرنے کی درخواست کی، لیکن انہیں مبینہ طور پر حادثے کی تفصیلات دبانے پر مجبور کیا گیا۔
طلباء اور مناہل کے خاندان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی، اور قانونی کارروائی نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ بعض طلباء، جو احتجاج میں شریک تھے، کو فیل کرنے اور دیگر تعلیمی سزاؤں کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔