ڈاکٹر پرویز محمود، جرأت و بہادری کا استعارہ

362

یہ شاید 1990 کی دہائی کی بات ہے سندھ میڈیکل کالج میں ایک طالب علم اشتیاق چودھری کا قتل ہوتا ہے۔ اس طالب علم کا تعلق جس طلبہ تنظیم سے تھا اس تنظیم کا کالج میں کئی طلبہ تنظیموں سے جھگڑا اور مارپیٹ ہوتی رہتی تھی یہ خود بھی انفرادی طور پر جھگڑالو طبیعت کا نوجوان تھا، قتل سے کچھ دن پہلے اس کی تنظیم کا جمعیت سے بھی تصادم ہو چکا تھا اس لیے جو لوگ اس کی جان کے دشمن تھے انہوں نے موقع غنیمت جانا کہ اس سنہری موقع پر اس سے اپنا حساب کتاب چکا لیا جائے اور پھر از خود اس کے قتل کا الزام جمعیت پر آجائے گا۔ چنانچہ یہی ہوا اس کی تنظیم نے جمعیت کے ان کارکنان کے نام اس کے قتل کے الزام میں ایف آئی آر درج کروائی جو کالج میں فعال تھے جمعیت کے ان پانچ کارکنان میں ایک ڈاکٹر پرویز محمود بھی تھے جو ایم بی بی ایس کے سال دوم کے طالب علم تھے۔ اس زمانے میں میرے محلے میں ایک ڈاکٹر صاحب سے بات ہوئی جن کا تعلق سندھ سے تھا انہوں نے مجھے بتایا کہ اشتیاق چودھری کا تعلق سندھ کے پنجابی آباد گار میں سے تھا دراصل صدر ایوب خان کے دور حکومت میں پنجاب کے کچھ لوگوں کو سندھ میں زمینیں الاٹ کی گئیں تھیں جن کو پنجابی آباد گار کہا جاتا تھا ایوب خان کے اس فیصلے سے سندھ میں بے چینی کی ایک لہر بھی دوڑی تھی۔ ان ڈاکٹر صاحب نے جو دلچسپ بات مجھے بتائی کہ 1970 کے عام انتخابات میں ہمارے گائوں میں اشتیاق چودھری کے والد نے اپنے گھر پر سب سے پہلے جماعت اسلامی کا جھنڈا لگایا تھا اور ان کے والد کی فیملی نے جماعت کے امیدوار کے لیے کام کیا تھا یہ ہو سکتا ہے کہ یہ اشتیاق چودھری کی پیدائش سے پہلے یا اس کے بچپن کی بات ہو چونکہ ان ڈاکٹر صاحب کا تعلق بھی اسی گائوں سے تھا اس لیے ان کی یہ بات کسی حد تک ٹھیک نہ ہو لیکن غلط بھی نہیں ہو سکتی۔ یہ تمام پانچ ساتھی اس قتل کے جھوٹے الزام میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور پھر برسوں ان کا کیس چلتا ہے۔

مَیں اُس زمانے میں ڈاکٹر پرویز محمود سمیت ان پانچوں طلبہ سے ذاتی طور پر واقف نہیں تھا لیکن ان کے عدالتی مراحل کی خبریں شوق سے پڑھتا تھا اور اسی نظریاتی محبت میں ایک دفعہ ان کی تاریخ والے دن عدالت پہنچ گیا کہ ان ساتھیوں کو دیکھوں کون ہیں اور موقع ملے تو ہاتھ بھی ملا لوں کیونکہ ان میں سے کسی سے میں چہرے سے بھی واقف نہیں تھا اندر سماعت ہورہی تھی اس لیے باہر ہی انتظار کیا جب سماعت ختم ہوئی اور ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ یہ طلبہ اپنے ساتھیوں کے جم غفیر کے ساتھ باہرآئے پھر پولیس کی نفری بھی تھی اس لیے قریب جاکر ہاتھ ملانے سلسلہ تو نہیں بن سکا لیکن اپنا اس وقت کا ایک معصوم سا شوق پورا کرلیا کہ ایسے باہمت لوگوں کو دور سے دیکھ لینا ہی کافی ہے۔ ان تمام ملزمان نے جیل ہی سے اپنے امتحانات دیے اور کچھ نے وہیں سے اپنے ایم بی بی ایس کا کورس مکمل کرلیا کچھ نے بعد میں رہائی کے بعد ڈگری حاصل کی۔ برسوں اس کیس کی سماعت ہوتی رہی استغاثہ کیس ثابت نہ کرسکا پھر ان سب کو عدالت نے بے گناہ قرار دیتے ہوئے باعزت رہا کردیا۔ پھر اسی جیل کے ایک ساتھی کی بہنوں کی شادی کی تقریب میں 17 ستمبر 2012 کو اپنے ایک دوست جو کار ڈرائیو کررہے تھے کے ساتھ جارہے تھے کہ راستے میں شہید کردیے گئے ان کے دوست بھی ان کے ساتھ شہید ہوئے۔ پرویز بھائی سے چہرہ شناسائی نہ ہونے کے باوجود ہمارا ایک دوسرے سے غائبانہ تعارف تو تھا اس لیے کہ 1980 کی دہائی میں جماعت کی طرف سے نوجوانوں کی بنائی ہوئی تنظیم نوجوانان لیاقت آباد کی ذمہ داری مجھ پر تھی اس زمانے میں تنظیم کی سرگرمیوں کی بھرپور رپورٹ تمام اخبارات میں شائع ہوتی تھی اس لیے کراچی کی دیگر سماجی تنظیموں اور طلبہ تنظیم کے متحرک اور فعال نوجوان ہماری تنظیم سے اچھی طرح واقف تھے۔

یہ تو نہیں یاد کے ہماری پرویز بھائی سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی لیکن پھر ان سے ذاتی رابطہ ہوگیا تھا وہ کئی بار میرے پرنٹنگ پریس بھی آتے رہے ان پر کچھ عرصے کے لیے شباب ملی کراچی کی ذمہ داری بھی رہی۔ اس وقت کراچی کے امیر نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ تھے اور ضلع وسطی کے امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ تھے میری ذمہ داری بھی ڈاکٹر معراج کی ٹیم میں نائب قیم کی حیثیت سے تھی۔ پرویز بھائی چونکہ ناظم آباد میں رہتے تھے اس لیے دفتر ضلع میں بھی ان سے ملاقات رہتی تھی، ایک دن دفتر پہنچا تو ایک دعوت نامہ ملا وہ پرویز بھائی کی شادی کا دعوت نامہ تھا جو انہوں نے مجھے الگ سے دیا تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو اس میں ایم کیو ایم نے کسی وجہ سے بائیکاٹ کیا اور صرف بائیکاٹ ہی نہیں کیا بلکہ دیگر جماعتوں کے اور جو آزاد لوگ کھڑے ہوئے ان کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع کیا ان کے گھروں پر یہ نعرے لکھ کر جاتے کہ لیٹ جائو یا بیٹھ جائو بہرحال اس انتخاب میں جماعت نے بھر پور کامیابی حاصل کی۔ ضلع وسطی میں چار ٹائون تھے اور چاروں میں جماعت کو بھرپور کامیابی ملی تھی۔ ناظم آباد اور لیاقت آباد پر مشتمل ٹائون 9 یوسیوں پر مشتمل تھا ان میں سے پانچ پر جماعت کے یو سی ناظمین کامیاب ہوئے تھے۔ لیاقت آباد ٹائون کے ناظم کے لیے نائب امیر ضلع وسطی محمد مسلم بھائی کا نام ضلعی شوریٰ نے طے کیا۔ مسلم بھائی کے والد حاجی عبدالستار صاحب میئر افغانی کے دور میں ہمارے ساتھ کونسلر رہ چکے تھے۔ مسلم بھائی ضلع کے نائب امیر بھی تھے اس لیے انہوں نے مجھ سے کہا کہ کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت ٹائون کا ایک منصوبہ بھی بنا کر دینا ہے وہ آپ بنادیں وہ ان بنا کر دے دیا بعد میں معلوم ہوا کہ ان ہی نکات پر ضلع کے دیگر ٹائون کا منصوبہ بھی بنایا گیا۔ مرکز پاکستان نے ناظم کراچی کے لیے نعمت اللہ صاحب کا فیصلہ کیا تو ڈاکٹر معراج صاحب جو ضلع وسطی کے امیر تھے انہیں قائم مقام امیر کراچی بنایا گیا اور ضلع وسطی میں ان کی جگہ محمد مسلم بھائی کو قائم مقام امیر ضلع وسطی بنایا گیا۔ پھر ضلعی شوریٰ کے اجلاس میں ڈاکٹر پرویز محمود بھائی کا نام ناظم ٹائون لیاقت آباد کے لیے اور ہمارے بڑے پیارے ساتھی اور دیرینہ رفیق شہاب الدین صاحب کا نام نائب ناظم ٹائون کے لیے طے ہوا۔ (ان کا دو ماہ قبل ہی انتقال ہوا ہے اللہ مغفرت فرمائے)

(جاری ہے)