(6)
جماعت اسلامی کے اجتماع میں غنڈہ گردی، فائرنگ اور رہائشی خیموں کو نذر آتش کرنے کے واقعات کا بنیادی مقصد اجتماع کو منتشر کرنا تھا۔ حکومت چاہتی تھی کہ جماعت اسلامی خائف ہو کر اپنا پروگرام منسوخ کردے اور اپنا لائو لشکر سمیٹ کر چلتی بنے۔ لیکن اس کے برعکس ہوا یہ کہ لاہور میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مولانا مودودی پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ اس افواہ کے پھیلنے کی دیر تھی کہ اہل لاہور نے بڑی تعداد میں اجتماع گاہ کا رخ کرلیا وہ امیر جماعت کی خیریت معلوم کرنا چاہتے تھے، انہیں بتایا گیا کہ مولانا بالکل خیریت سے ہیں۔ فائرنگ کا مقصد مولانا مودودی کو قتل کرنا نہیں بلکہ جلسے کو منتشر کرنا تھا جس میں حملہ آوروں کو ناکامی ہوئی۔ حقیقت حال واضح ہونے کے باوجود اجتماع میں لاہوریوں کا رش لگا رہا جبکہ امیر جماعت کی ہدایت پر تین چار افراد پر مشتمل وفود بڑی تعداد میں پورے شہر میں پھیلا دیے گئے۔ ان وفود نے نہایت موثر انداز میں جماعت اسلامی کی دعوت اور اس کے پیغام کو عوام تک پہنچایا اور انہیں بتایا کہ پاکستان جس کلمے کی بنیاد پر قائم ہوا ہے جماعت اسلامی اسی کلمے کے نظام کو ملک میں قائم کرنا چاہتی ہے اسی کو اسلامی نظام کہتے ہیں، جبکہ حکمران اس کے برعکس سیکولر نظام ملک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں نے وفود کی باتیں توجہ سے سنیں اور ان کی پزیرائی کی۔ اُس زمانے میں ممبر شپ کی اصطلاح رائج نہیں ہوئی تھی جو لوگ جماعت اسلامی کی دعوت سے اتفاق کرتے تھے انہیں متفق کہا جاتا تھا وہ باقاعدہ فارم پُر کرکے متفق بنتے تھے امیر جماعت اسلامی کے اندرونی انتخابات میں حصہ لینے اور امیر جماعت سمیت مرکزی و صوبائی عہدیداروں اور مجالس شوریٰ کے ارکان کے چنائو کا حق حاصل تھا۔ یہی نظام آج بھی کسی تبدیلی کے بغیر قائم ہے اور جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جس میں کوئی موروثیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دھڑے بندی ہے۔
یہ باتیں تو ضمناً نوک قلم پر آگئیں۔ ذکر تھا لاہور کے اجتماع کا جو غنڈہ گردی کے واقعے
کے بعد کئی دن تک شہر پر چھایا رہا اور زندہ دلانِ لاہور نے دل کھول کر جماعت اسلامی کی پزیرائی کی۔ اجتماع ختم ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو امیر جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس کے فوراً بعد بنیادی حقوق کی بحالی اور عوام کو براہ راست انتخاب کا حق دینے کے لیے دستخطوں کی مہم کا آغاز کردیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستانی دونوں جگہ جماعت اسلامی کے کارکن حرکت میں آگئے اور رابطہ عوام کی ایک وسیع مہم کا آغاز ہوگیا۔ اس سے پہلے مولانا مودودی مشرقی پاکستان کا ایک تفصیلی دورہ کرکے وہاں کے عوام کو جنرل ایوب کے صدارتی آئین کا اصل چہرہ دکھا چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دستور نہ تو پارلیمانی ہے نہ صدارتی نہ اس میں کسی قسم کی جمہوریت پائی جاتی ہے بلکہ صدارتی آئین کے نام پر ملک پر فوجی آمریت مسلط کردی گئی ہے اور عوام کو براہ راست حق رائے دہی سے محروم کرکے آمریت کے سپرد کردیا گیا ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام جنرل ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف بہت پُرجوش تھے جبکہ مغربی پاکستان میں بھی آمریت کے خلاف جذباتی فضا پائی جاتی تھی۔ چنانچہ دستخطی مہم توقع سے بڑھ کر کامیاب رہی اور جب ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو جماعت اسلامی نے اجلاس میں بنیادی حقوق کی سِیلی اور ایک آمرانہ آئین کے خلاف 9 میل لمبا ایک محضرنایہ اجلاس میں پیش کردیا جس سے ایوب حکومت بدحواس ہوگئی اور اس نے محضرنامہ پر بحث سے پہلے اجلاس ملتوی کردیا۔ اس نے جماعت اسلامی کے خلاف اپنے وزیروں کی فوج ظفر موج کو میدان میں اُتار دیا۔ ذرائع ابلاغ پر بھی اس کا قبضہ تھا۔ اسی طرح مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ ان پر قیام پاکستان کی مخالفت کا الزام لگایا گیا۔ جہاد کشمیر کے خلاف فتویٰ دینے کا الزام بھی گھڑا گیا۔ یہاں تک کہ جوش میں آکر جماعت اسلامی پر امریکی ایجنٹ ہونے کی پھبتی بھی کسی گئی لیکن جماعت اسلامی ان الزامات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے کام میں لگی رہی اور اس نے ایوب حکومت کو بری طرح زچ کردیا۔ اس نے آخری چارئہ کار کے طور پر 3 جنوری 1964ء کو جماعت اسلامی پر پابندی لگادی۔ امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی سیکرٹری جنرل میاں طفیل محمد سمیت مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کو گرفتار کرلیا گیا اور جماعت اسلامی کے دفاتر پر چھاپے مار کر تمام اہم کاغذات، دستاویزات اور آمدنی و خرچ کے حسابات قبضے میں لے لیے گئے۔ بعدازاں تمام دفاتر کو سربمہر کردیا گیا۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے لیے جن الزامات کا سہارا لیا گیا وہ وہی تھے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ جماعت کے خلاف چارج شیٹ میں مزید الزامات یہ تھے کہ جماعت اسلامی تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہے، اسے جب بھی موقع ملا ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اور یہ کہ جماعت اسلامی کو بیرونی امداد ملتی ہے۔
یہ الزامات بڑے ہولناک تھے لیکن ان کی حقیقت جھوٹ کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ اصل الزامات جماعت اسلامی پر یہ تھے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام کی تحریک چلا رہی تھی اور ملک کو کلمہ توحید کے مطابق اسلامی ملک بنانا چاہتی تھی۔ وہ جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت کے خلاف تھی۔ وہ 1956ء کے آئین کی تنسیخ اور 1962ء کے آمرانہ آئین کی تنقید کے خلاف تھی اور اسے عوام کے جمہوری حق پر ڈاکا سمجھتی ہے۔ وہ ملک میں قانون کی حکمرانی چاہتی ہے جبکہ ایوب حکومت ہر قسم کے غیر قانونی کام کررہی ہے جس کی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ایوب حکومت نے امریکا کے دبائو میں آکر کشمیر کو آزاد کرانے کا ایک سنہری موقع گنوادیا جو چین نے بھارت کو جنگ میں الجھا کر اسے فراہم کیا تھا۔ یہ ایک ایسا سنگین جرم ہے جس پر جنرل ایوب خان کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔ یہ وہ حقیقی الزامات تھے جو جماعت اسلامی پر لگائے جاسکتے تھے لیکن جنرل ایوب خان کو جماعت اسلامی کے خلاف یہ الزامات لگانے کی جرأت نہ تھی کیونکہ یہ الزامات خود اس کی حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ کا درجہ رکھتے تھے۔ چنانچہ جب جماعت اسلامی پابندی کے خلاف اپیل لے کر عدالت عظمیٰ میں گئی تو عدالت نے ایک نظر ہی میں جانچ لیا کہ جماعت اسلامی کے خلاف حکومت کا کیس بالکل جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔ اُس زمانے میں اسٹیبلشمنٹ نے عدالتوں پر اثر انداز ہونے کے گُر نہیں سیکھے تھے اور عدالتیں آزاد تھیں۔ مقدمہ چلا تو چند ماہ ہی میں اس کا فیصلہ ہوگیا۔ چیف جسٹس کارنیلس نے جماعت اسلامی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور جماعت اسلامی پر پابندی لگانے، اس کے لیڈروں کو گرفتار کرنے اور اس کے دفاتر کو سربمہر کرنے کا حکم غیر قانونی قرار دیا۔ (جاری ہے)