کیوڈو نیوز کی ایک حالیہ خبر کے مطابق امریکا، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان انڈو پیسیفک خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے جواب میں مشترکہ کوسٹ گارڈ اور میری ٹائم پولیس گشت کا آغاز کرنے والے ہیں، کواڈ معاہدے سے منسلک ممالک کے بیانیے کے مطابق یہ مشترکہ اقدام خطے میں سمندری سلامتی کو یقینی بنانے اور غیر قانونی ماہی گیری کے مسائل کو حل کرنے کا حصہ ہے۔ جاپانی اخبار کے مطابق 15 ستمبر کو سفارتی ذرائع سے موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق یہ مشترکہ گشت بین الاقوامی قوانین کے نفاذ اور سمندری نظم کو مضبوط بنانے کی کوشش کا حصہ ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ یہ منصوبہ 21 ستمبر کو ہونے والے کواڈ سمٹ میں باضابطہ طور پر پیش کیا جائے گا، جس میں امریکی صدر جو بائیڈن اور جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا کی شرکت ہوگی۔ مزید برآں ممکن ہے کہ کشیدا کی عہدے سے سبکدوشی سے قبل دونوں سربراہان کی یہ آخری ملاقات ہو۔ اس سمٹ میں آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی شرکت کریں گے۔ کواڈ ممالک کے بیانیے کے مطابق اس چار رکنی بین الممالک اتحاد کو چین کے انڈو پیسیفک میں بڑھتے ہوئے فوجی اور اقتصادی اثر رسوخ کے جواب میں توازن کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، اور کواڈ کے آئندہ سمٹ کا مرکزی مقصد مشترکہ سمندری گشت کا نظام قائم کرنا ہے، جس میں چاروں ممالک کے کوسٹ گارڈ فورسز کے درمیان قریبی تعاون کی توقع کی جا رہی ہے۔ کواڈ ممالک کے مطابق اس اقدام کا مقصد انڈو پیسیفک خطے میں ’’آزاد اور کھلے سمندری نظم‘‘ کو یقینی بنانا ہے، جو کہ خطے میں شفافیت اور قوانین کی بالادستی کے فروغ پر زور دیتا ہے، اس منصوبے کے تحت کواڈ ممالک کے کوسٹ گارڈ اہلکار امریکی بحری جہازوں پر تعینات ہوں گے تاکہ باہمی مفاہمت اور آپریشنل ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔
اس صورتحال کو چین بغور دیکھ رہا ہے اور چینی نقطہ نظر کے مطابق، کواڈ کا یہ مشترکہ گشت اقدام اس کی سمندری حدود، خاص طور پر بحیرہ جنوبی چین میں اس کے جائز دعووں کے لیے ایک چیلنج سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عموماً ایک اصطلاح 9 ڈیش لائن کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جسے چین اپنے دعووں کے جواز کے طور پراستعمال کرتا ہے، (نائن ڈیش لائن، ایک جغرافیائی لائن ہے جو چین نے جنوبی چین کے سمندر میں اپنے علاقے کا تعین کرنے کے لیے استعمال کی ہے۔ یہ لائن 1940 کی دہائی میں چینی حکومت کی طرف سے متعارف کروائی گئی تھی اور اس میں مختلف جگہوں پر ’’ڈیشز‘‘ یعنی نقاط شامل کیے گئے ہیں، جو جنوبی چین کے سمندر میں چین کی ملکیت کے دعوے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لائن کے اندر موجود کئی جزیروں، چٹانوں اور سمندری علاقے چین کے زیر ملکیت بتایا گیا ہے) چین کے مطابق، نائن ڈیش لائن اس کے تاریخی حقوق کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کے جنوبی چین کے سمندر میں طویل عرصے سے قائم سمندری حدود کو ظاہر کرتی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ تاریخی شواہد اور قدیم چینی نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقے چین کی ملکیت ہیں اور اس پر چین کا حق ہے۔ چین کے مطابق، بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کے باوجود، ان تاریخی حقوق کی بنا پر، نائن ڈیش لائن کے اندر آنے والے سمندری علاقے پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔
نائن ڈیش لائن خطے میں کئی دہائیوں سے تنازعے کا مرکز رہی ہے۔ چین اس لائن کی بنیاد پر تاریخی حقوق کا دعویٰ کرتا ہے جو دیگر ممالک کے خصوصی اقتصادی زون (Exclusive Economic Zone – EEZ) تک پھیلی ہوئی ہے، جن میں فلپائن، ویتنام اور ملائیشیا شامل ہیں۔ اس موضوع کو 2016 میں مستقل ثالثی عدالت (Permanent Court of Arbitration – PCA) میں اٹھایا گیا تھا جہاں فلپائن کے حق میں فیصلہ سنایا گیا اور چین کے بحری دعوؤں کو مسترد کر دیا گیا، تاہم چین نے اس فیصلے کے بعد بھی یہاں اپنی موجودگی کو برقرار رکھا ہے۔ نائن ڈیش لائن، 900 کلومیٹر رقبے پر پھیلی وہ سمندری حدود ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے سمندری قوانین کے کنونشن (United Nations Convention on the Law of the Sea – UNCLOS) کے تحت قانونی طور پر تسلیم نہیں کی گئی، لیکن یہ چین کی علاقائی حکمت عملی میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ بیجنگ یہاں اپنی موجودگی کو نہ صرف تاریخی طور پر جائز قرار دیتا ہے بلکہ اسے اپنی قومی سلامتی اور اقتصادی مفادات کے لیے بھی ضروری سمجھتا ہے۔ چین کے سفارتی مؤقف کے مطابق کواڈ، کا جنوبی بحیرہ چین میں مشترکہ گشت کا منصوبہ چین اپنی خودمختاری اور مفادات کو محدود کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھے گا۔
کواڈ کی جانب جھکاؤ رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق کواڈ کا یہ مشترکہ گشت خطے پر مختلف اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف، اس کا مقصد بین الاقوامی اصولوں کو مضبوط بنانا اور بحری راستوں کی آزادی کو یقینی بنانا ہے، جو کہ عالمی تجارت کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اس ضمن میں خود کواڈ کے اراکین کا کہنا ہے کہ ان کے اقدامات بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہیں اور کسی خاص ملک کو ہدف بنانے کے لیے نہیں کیے جا رہے۔ اس لحاظ سے، یہ گشت ایک سفارتی اقدام کے طور پر کام کرتے ہیں تاکہ سمندری نظم و ضبط کو برقرار رکھا جا سکے۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ، چین ان گشتی سلسلوں کو اپنی خودمختاری کے لیے براہ راست خطرہ سمجھ سکتا ہے۔ چینی تجزیہ کار کواڈ کو ’’ایشیائی ناٹو‘‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں، بیجنگ نے ہمیشہ اس بات کی مخالفت کی ہے کہ غیر ملکی طاقتیں اس کے داخلی بحری معاملات میں مداخلت کریں، چین سمجھتا ہے کہ ان گشتی مشقوں کا مقصد چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو محدود کرنا ہے۔ اس بات کے بھی واضح امکانات ہیں کہ ان مشقوں کے بعد جواباً، چین جنوبی بحیرہ چین اور نو ڈیش لائن کے تحت شامل دیگر علاقوں میں اپنی فوجی اور کوسٹ گارڈ سرگرمیاں بڑھا دے۔ اس سے قبل بھی چینی حکام نے متعدد بار کواڈ کے اقدامات کو ’’اشتعال انگیز‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ علاقائی امن و استحکام کے لیے نقصان دہ ہیں۔ چینی نقطہ نظر سے، اس طرح کے مشترکہ گشت کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں، جس سے ماہی گیری کے حقوق، سمندری وسائل تک رسائی، اور فوجی امور پر تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔ خطے کے چھوٹے ممالک، خاص طور پر آسیان کے رکن ممالک، کو بڑی طاقتوں کے درمیان اس بڑھتی ہوئی کشمکش سے ایک مخمصے کا سامنا ہے، کیونکہ وہ ایک طرف چین کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف مختلف خدشات کی بناء پراپنی سلامتی کو بھی مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
اس مسئلے کا ایک سفارتی حل بہت ضروری ہوگیا ہے، جس کے تحت ممکنہ تنازعات کو روکنے کے لیے چین اور کواڈ کے رکن ممالک کے درمیان مذاکرات ضروری ہو چکے ہیں۔ کیونکہ جنوبی بحیرہ چین میں موجود کشیدگی کے ماحول میں کسی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے لیے صرف سفارتی کوششیں ہی واحد حل ہیں، جو تنازعات کے حل اور جنگ سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس ضمن میں چند اعلیٰ سطحی ملاقاتیں بھی ریکارڈ پر ہیں، جن میں امریکی انڈو پیسیفک کمانڈ اور چین کی سدرن تھیٹر کمانڈ کے درمیان حالیہ ملاقات بھی شامل ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ دونوں جانب یہ یہ تاثر موجود ہے کہ ان پانیوں میں غلط فہمیوں یا حادثات کے خطرات کو کم کرنے کے لیے واضح مواصلاتی چینل کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی تھنک ٹینکس کے مطابق ایک متوازن حکمت عملی کے طور پر، اس بات کا ادراک بھی بڑھ رہا ہے کہ انڈو پیسیفک میں سمندری نظم کو برقرار رکھنے کے لیے جامع تعاون کی ضرورت ہے، جہاں چین کے خدشات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ لہٰذا، اعتماد سازی کے اقدامات اور مشترکہ منصوبے جن میں نہ صرف کواڈ کے رکن ممالک بلکہ چین اور دیگر علاقائی فریق بھی شامل ہوں، خطے میں استحکام کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ تصور ٹھیک بھی مان لیا جائے کہ کواڈ کا مشترکہ سمندری گشت انڈو پیسیفک میں آزاد اور کھلے سمندری نظم کو یقینی بنانے کی سفارتی کوشش ہے۔ تو یہ بہت ضروری ہے کہ فریقین ایسے اقدامات کو یقینی بنائیں جو چین کے تاریخی دعووں، علاقائی تنازعات اور کشیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے ممکنہ حل کی اسپرٹ کے ساتھ خطے میں امن کے فروغ اور تمام فریقین کو مل جل کر امن قائم رکھنے پر آمادہ رکھ سکیں۔