مولانا مودودی نے اسلام کے عالمگیر پیغام کو پوری قوت اور دلائل سے پیش کیا

292

کراچی ( سیدوزیرعلی قادری ) عہد حاضر کے امام اور مجدد جماعت اسلامی کے بانی امیر سید ابوالاعلی مودودیؒؒ کی تصانیف کا گہرا مطالعہ کرنے اور ان کی شخصیت سے متاثر مقتدر شخصیات سے جسارت نے سوال کیا کہ ” مولانا مودودیؒ کے عالمگیر اثرات کے اسباب کیا ہیں؟” جن شخصیات نے رائے دی ان میں لیاقت بلوچ، محمد حسین محنتی،فاروق فرحان، مولانا ثناء اللہ رحمانی، پروفیسر اسحق منصوری، پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن، اعجاز احمد طاہر اعوان ، شگفتہ یوسف، میر حسین علی امام اور صبیحہ احتشام شامل ہیں۔لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ 20ویں صدی میں اللہ تعالی نے اپنے جن نیک بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ اپنے حالات کے مطابق اسلام کو ایک تصور حیات اور مکمل نظام زندگی اور ایک دعوت اور تحریک کے طور پر پیش کریں اور اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو اس تاریخی جدوجہد میں لگادیں جو اقامت دین کے لیے مطلوب ہے مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ ان میں نمایاں ہیں۔ انہوں نے 1933ء میں اس دعوت کو ایک فکری تحریک کی شکل میں آغاز کرنے کے بعد اجتماعی اصلاح کی ایک انقلابی تحریک کی شکل میں 1941 میں منظم کردیا اور اس کے اثرات دنیا کے گوشے کوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی فکر کے عالمگیر اثرات کے بنیادی اسباب یہ ہیں کہ ان کی فکر آفاقی اور ذی شعور اور حق کے متلاشی فرد کے لیے کشش رکھتی ہے۔ قرآن و سنت ہی مولانا کی جدوجہد کا ماخذ ہیں اور ہر طرح کے تعصبات سے پاک فکر نے اپنے اثرات اور مقبولیت پیدا کرلی۔ بنیادی طور پر انسان خصوصا اہل ایمان خیر کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اور شر سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی فکر کی اسی طاقت نے دنیا بھر میں اثرات پیدا کرلیے کہ انسانوں کو خیر پر جمع کرنے کی دعوت دی۔ کئی صدیوں کی سامراجی دور، مغربی تہذیب کے غلبے اور خود مسلمانوں کے ذہنی جمود کے نتیجے میں دین کے قرآنی تصور اور منج نبوی پر جو پردے پڑ گئے تھے یا تجدد، اصلاح جدیدیت کے نام پر جس برید کا ان کو نشانہ بنایا گیا تھا مولانا مودودیؒ نے فکری انتشار اور خلفشارکا بھر پور مقابلہ کیا اور اسلام کی روشن شاہراہ کو ہر گرد و غبار سے پاک کرکے اس کی اصل شکل میں پیش کیا اور قرآن و سنت کے محکم دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ یہ ہی اسباب ہیں کہ دنیا بھر میں مولانا مودودیؒ کے اثرات بڑھتے گئے ۔ اشتراکیت، مغربی تہذیب، سرمایہ دارانہ نظام اور سیکولر ازم لادینیت کے مقابلے میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو مولانا مودودیؒ نے پوری قوت سے پیش کیا اور دنیا بھر میں اسے قبولیت ملتی چلی گئی۔ محمد حسین محنتی نے کہا کہ مولانا مودودیؒ کی فکر اسلام پر مبنی عالمی فکر ہے اور اسلام نے صرف مکے مدینے میں انقلاب برپا نہیں کیا بلکہ قیصر و کسری کی طاقتوں کو زیرکرتے ہوئے فتوحات حاصل کیں اور وہاں پر بھی اسلامی نظام نافذ کیا ، مولانا مودودیؒ کی فکر اسلامی اورعالمگیر فکر ہے ان کے لٹریچر کو پڑھیں ان کے لٹریچر میں ایک عالمگیر اسلامی انقلاب کی روح ملے گی اس کا جذبہ ملے گا، انہوں نے کبھی اپنی دعوت کو پاکستان یا بھارت تک محدود نہیں کیا تھا بلکہ ہمیشہ یہ بات کی ہے، جماعت اسلامی کا مختلف ملکوں میں بیک وقت موجود ہونا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ مولانامودودیؒ کی دعوت مقامی نہیں ہے اور ان کی دعوت جو ہے صرف ایک ملک اور پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ عالمگیر دعوت ہے اور اسی لیے ان کے اثرات بھی عالمگیر ہے ۔ ان کے لٹریچر کے ترجمے باقی دنیا کی مختلف زبانوں میں کیے گئے مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن کے ترجمے بھی دنیا کے چپے چپے میں ہوئے ہیں اور پڑھے جاتے ہیں ،جس طرح ملکوں کی پہچان ہوتی ہے تو ہمارے ملک کی پہچان میں مولانا مودودیؒ سب سے نمایاں ہیں، مسلمان ہو چاہے وہ غیر مسلم ہو مولانا مودودیؒ اثرات قبول کیے ہیں ۔فاروق فرحان کی رائے تھی کہ مولانا مودودیؒ20ویں صدی کے عظیم مجدد ہیں ۔ نئی نسل کو مخاطبکیا اور دور حاضر کے نظام باطل کو چیلنج کیا۔ عام فہم زبان میں قرآن کی تفسیر ان کے عظیم کارناموں میں سے ایک ہے ، موجودہ دور میں دین اسلام کے حقیقی معنوں سے امت مسلمہ کو آگاہی فراہم کی جس میں جہاد کی نئی راہیں کھولیں۔پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحق منصوری نے کہا کہ سید مودودیؒ اس صدی کے مجدد تھے ، اللہ تعالی نے سید مودودیؒ سے اپنے دین کی غیر معمولی خدمت لی ،اپنی رضا اور خوشنودی کے لیے غیر معمولی کام کرنے کا شرف بخشا، جس طرح سید ابو الاعلی مودودیؒ نے اپنے وقت کے مسائل اور تقاضوں کو سمجھا اور اپنے اسباب و وسائل اور زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لیے ایک لائحہ عمل ایک منصوبہ اور ایک طریقہ کار اختیار کر کے اپنی منزل کی طرف مستقل مزاجی کے ساتھ ہر قسم کے گرم اور سرد حالات اور نشیب و فراز میں اپنی منزل کی طرف گامزن ہی نہیں رہے بلکہ پوری دنیا کو ساتھ لے کر چلتے رہے جس کے نتیجے میں آپ کے تجدید و احیائے دین کے کام کے آج ہم عالمگیر اسباب عالمگیر اثرات دیکھ رہے ہیں ۔مولانا ثناء اللہ نے کہا کہ مفکر اسلام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ گزشتہ صدی کے مجدد اور امام تھے انہوں نے ایک ایسے دور میں جب امت مسلمہ پر زوال کے مہیب سائے ہر سو چھاچکے تھے مسلمانوں کی علامتی خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوچکا تھا برصغیر پر انگریزوں کا مکمل قبضہ تھا، مسلمانوں میں ایک طرف مستقبل کے حوالے سے شدید مایوسی تھی تو دوسری طرف انگریز کے غلبہ کی وجہ سے غالب تہذیب سے بالخصوص نوجوانوں میں مرعوبیت تھی اور اس تہذیب کو ذہنی فکری اور عملی طورپر اختیار کیا جارہا تھا مسلمان ہونے کی وجہ سے صرف عقیدہ اور عبادات کی ادائیگی اور عائلی زندگی میں اسلام کے مطابق عمل پر مطمئن ہوچکے تھے ، برصغیر میں مسلم سیاسی قیادت میں کوئی ایسا رہنما نہیں تھا جو مسلمانوں کو فکری اور عملی طور پر دین اسلام کو مکمل طور پر اختیار کرنے کی رہنمائی کرتا مخالفین اور دشمنان اسلام کی طرف سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوچکا تھا، زبردستی ہندو بنانے کی مہم چلائی جارہی تھی قادیانیت کی صورت میں ناسور انگریز کی سرپرستی میں مسلمانوں میں سرایت ہورہا تھا ایسے دور اور حالات میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے قلم کے ذریعے جہاد شروع کیا ، اول الجہاد فی الاسلام کتاب تحریر کرکے اس پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے، جدید تعلیم یافتہ افراد کے ذہنوں میں غیروں کی جانب سے پیدا شدہ شبہات کو قرآن و حدیث اور عقلی دلائل سے دور کیا جدید علم الکلام کے ذریعے ثابت کیا کہ دین اسلام نہ صرف مکمل ضابطہ حیات ہے بلکہ دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے ،اس کے لیے قرآنی اصطلاح اقامت دین کی تشریح و تفسیر کو اپنی تصانیف میں تفصیل سے بیان کیا اور اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی کی صورت میں بہترین منظم صالح اجتماعیت کو قائم کیا اقامت دین کو اس کا نصب العین قرار دیا، تفہیم القرآن ،دینیات ،سلامتی کا راستہ ،شہادت حق ،پردہ ،سود ،تفہیمات ،تنقیحات ،سنت کی آئینی حیثیت، مسئلہ قادیانیت، خلافت و ملوکیت، حقوق الزوجین، اسلام کے اصول و مبادی سمیت متعدد کتب اور لیٹریچر تحریر کیں جو نہ صرف قرآن وحدیث سے مزئین ہیں بلکہ دور جدید کے تمام اشکالات اور شبہات کا ازالہ کرتی ہے یہی وجہ کہ ایک طرف مسلمان بالخصوص کثیر تعداد میں جدید تعلیم یافتہ افراد نہ صرف اس سے مطمئن ہوئے بلکہ ان کی زندگی تبدیل ہوگئی تو دوسری طرف بہت بڑی تعداد میں غیر مسلم ان لٹریچر سے مسلمان ہوگئے ،یہی وہ عظیم الشان لیٹریچر ہیں جو آج دنیا بھر میں اسلامی انقلاب تحریکوں کو فکری غذا فراہم کر رہے ہیں۔ڈاکٹر پروفیسر شفیق الرحمن کا کہنا تھا کہ انسان کی نیت اگر خالص ہو اور اس کو کوئی ذاتی غرض نہ ہو اور جو دین کی وہ خدمت کر رہا ہے وہ زبان سے بھی ہو سکتی ہے ،تقریر سے بھی ہو سکتی ہے اور اپنے عمل سے بھی ہو سکتی ہے، مولانا نے خالص نیت کے ساتھ ،اللہ کی محبت جو ان کے دل میں تھی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل میں تھی ،قرآن کی محبت تھی یہ3 چیزیں ایسی ہیں کہ جو انسان کو اس کے پیغام کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تحریک یا ان کی دعوت یا دین نہیں پھیلا بلکہ دنیا میں لوگ ان کو جانتے ہیں اور جاننے سے میری مراد یہ ہے کہ انہوں نے جو پیغام دیا قرآن کے ذریعے سے حدیث کے ذریعے سے تقریر کے ذریعے سے اور خاص طور سے جو تفہیم القران کی جو ان کی تفسیر ہے اس کے ذریعے سے تو اسی وجہ سے دنیا میں لوگوں نے اسلام کی حقانیت کو قبول کیا یہ سب سے بڑا سمجھ لیں ان کا اعزاز ہے ۔ اعجاز احمد طاہر اعوان نے کہا کہ مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کے عظیم اسلامی اسکالر، مفکر اسلام کے داعی، مورخ، قائد اور مجدد ہونے یکساں طور پر اپنا منفرد مقام رکھتے تھے۔ جنہوں نے دین اسلام کے احیائے نو کے لیے امت اسلامیہ میں نئی روح پھونک کرفکر اسلامی کو پر اعتماد، عمدہ، اورمددلل اسلوب میں اجاگر کیا۔ مغربی فکر و تہذیب سے مرعوبیت کے شکار نئی نسل اسلام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ آپ نے اپنی تحریروں کے ذریعے نوجوانوں کو حیرت انگیز حد تک بدل کر رکھ دیا۔ مولانا مودودیؒ نے جس دور میں علمی، فکری اور اپنے تخلیقی کام اور تحریروں کے سلسلہ کا آغاز کیا وہ دور مغربی فکر و فلسفہ اور اشتراک کے غلبہ کا دور تھا۔ علمی و فکری افق پر صرف ان کی پکار سے ہی لوگ مرعوب ہو رہے تھے۔ یہ مولانا مودودیؒ کی علمی شخصیت ہی تھی جنہوں نے اسلام کو فعال، متحرک اور اس کے غالب ہونے کا حقیقی تصور بھی پیش کیا۔ انہوں نے مغربی فکر تہذیب سے مرعوبیت کو ختم کرنے میں اپنا بھرپور اور کلیدی کردار بھی ادا کیا۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی تحریروں کے ذریعے برطانوی استعمار کے مذموم مقاصد اور مغربی فکر و تہذیب نہ صرف حقیقی معنوں میں صحیح ادراک بھی کیا بلکہ اس کے تدارک کے لیے فوری اور عملی جہاد بھی کیا۔ انہوں نے اسلام کا جامع، مکمل اور واضع”تصور حیات” بھی پیش کر کے امت اسلامیہ کی جامع رہنمائی کا دروازہ بھی کھولا۔انہوں نے اپنی یادگار اور تخلیقی تحریروں کے ذریعے اسلام کو نہایت پر زور اور مدلل انداز میں “دنیائے انسانیت”کے لییمتبادل قرار دیا اور اسلام کی زندگی کے تمام شعبوں کے لیے قابل عمل بھی قرار دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ اسلام ہی حقیقت میں انسانی زندگی کے لیے مکمل ضابطہء حیات ہے۔ قرآن پاک مکمل دستور العمل ہے۔ “عالمگیریت ” کے اس دور میں بھی اسلام اپنی نمائندگی خوب کرتا ہے کیونکہ یہ ہی مکمل نظام حیات ہے۔ مولانا مودودیؒ نے قرآن و حدیث اور اجتہاد میں ترتیب قائم کر کے ان کی اپنی اپنی اہمیت اور افادیت بیان کی، نیز مسلمانوں میں فکر اسلامی کے احیاء کی تحریک کو بھی اجاگر کیا۔ مولانا مودودیؒ نے علمی و فکری، سیاسی، تعلیمی، معاشی، قانونی اور سماجی دائروں میں نہایت وسیع اثرات مرتب کیے اور اسلام کو ہر دور کے لیے راہنمائی کا مستقل ذریعہ ثابت کیا۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی یادگار تحریروں سے اسلام کو زندہ و جاوید مذہب قرار دیا اور دنیا کو درپیش بنیادی مسائل کی کھل کر نشاندھی بھی کر دی۔ انہوں نے اپنے اچھوتے موضوعات کے حوالے سے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور اپنے “قلم” کو جنبش دی کہ پورے عالم اسلام پر اس کے بڑے گہرے اثرات بھی مرتب ہوئے۔ مولانا مودودیؒ مکمل عالم دین، مفسر قرآن، اور جماعت اسلامی کے بانی ہونے کا بھی اعزاز رکھتے تھے۔ اور بیسویں صدی کے مؤثر ترین اسلامی فکر سے مزین ایک تاریخ ساز شخصیت کے مالک بھی تھے۔ ان کی تصانیف آج بھی پوری دنیا کے اندر ان کی شناخت کا باعث بنی ہوئی ہیں اوراسلامی تحریکات کے ارتقاء میں بڑا گہرا اثر ڈالا۔ یہ کہنا بھی بجا ہو گا کہ مولانا مودودیؒ کی علمی ذہانت سے لبریز شخصیت دراصل بیسویں صدی کے “مجدد اسلام”ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔ میر حسین علی امام نے کہا کہ سید ابوالاعلی مودودیؒ طرز ادیب انشاء پرداز کے ساتھ ایک عالم با عمل اور عملی صحافی تھے۔آپ نے تاج مدینہ جمعیتہ میں مضامین اور صحافت کا آغاز کیا اور مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے قرآن اور سنت کی تعلیمات کا سہارا لیا۔آپ ان کے خطبات پڑھیے پنجاب کے گاؤں دیہات کے لیے نہایت آسان زبان میں اراکین اسلام کی تبلیغ کی آج کے طالب علم کے لیے بھی آسان اور اہم ہے۔پردہ میں دور جدید کی میڈیکل سائنس کی روشنی میں پردہ کی اہمیت ثابت کی۔ترجمان القرآن میں آسان بامحاورہ ترجمہ کیا گیا اور تفہیم میں بائبل تاریخ جغرافیہ کے جدید علوم کی روشنی میں بنی اسرائیل کی اسرائیلیات کا مطالعہ بھی ہو،ا ارض قرآن کی تحقیق بھی ہو، صرف و نحو سے تفہیم ہو، اور قرآن کا دعوتی انقلابی آفاقی پیغام قارئین تک پہنچایا ۔قرآن جس مقصد کے لیے اتارا گیا قرآں ہمارے لیے نظام زندگی ہے اس کی بابت بتایا۔۔ آپ نے اسلام کو عبادت تک محدود نہی ںکیا ،نہ خانقاہ میں بند رکھا، کائنات ریاست انسان اور انسانیت کے مسائل کے لیے اسے استعمال کرنے کی تلقین کی۔شگفتہ یوسف کا کہنا تھا کہ مولانا مودودی ؒ(1903_1979) بیسویں صدی کے مفکر مفسر ،متعلم، قائد اور مجدد تھے قران و حدیث اور اجتہاد میں ترتیب قائم کر کے بڑی عرق ریزی سے اپنے خیالات کو تسلسل کے ساتھ ایک مربوط منظم اور پرکشش نظام حیات کی حیثیت سے پیش کیا۔ آپ نے جس دور میں علمی فکری اور تحقیقی کام شروع کیا وہ مغربی فکر و فلسفہ اور اشتراکیت کے غلبے کا دور تھا لوگ اس سے مرعوب ہو رہے تھے، آپ نے اسلامی فکر اور اس کے لازوال عقائد، نظام معیشت اور نظام تجارت ومعاشرت ، خاندان تعلیم و تربیت اور نظام سیاست اور ملکی اور بین الاقوامی قوانین ،تحریک و دعوت اور سماجیات پر نادر کتابیں لکھ کر یہ ثابت کیا کہ دین اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے نہ کہ محکوم ہونے کے لیے۔ مولانا کے نظریات کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے نہ صرف قبول کیا بلکہ اسلامی دنیا کی تحریکوں کی بنیاد بھی انہی نظریات پر رکھی گئی ۔ آج کی زندہ و جاوید تحریک حماس بھی انہی نظریات پر اپنے مضبوط اعصاب کے ساتھ جہاد کررہی ہے۔ غیر مسلموں کی نظر میں مولانا بہت مقبول تھے اور رہیں گے۔ اسکول اف اورینٹل لینگویج اور امریکن ایسٹڈیز ان برٹش کے لیکچرر اور جرمن اسکالر پٹر ہاٹنگ نے مولانا مودودیؒ کی فکر پر 15 سال تحقیق کی۔ان کی یہ بات کافی اہمیت کی حامل ہے کہ مولانا مودودیؒ نے بیسویں صدی میں دورس اثرات مرتب کیے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ “اسلام اپنی خالص ترین اور انتہائی توانا شکل میں دور جدید کی زندگی پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوا اور موجودہ زندگی کو متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے” ۔مشہور امریکی ایف ار سی رابن سن لکھتے ہیں۔ ” مولانا مودودیؒ نے ان لوگوں پر بھی تنقید کی ہے جو اسلامی ریاست اور اس کے قیام کو ایک خیالی پلاؤ قرار دیتے تھے انہوں نے اپنی تحریروں میں اسلام کو زندہ و جاوید مذہب قرار دیا اور بتایا کہ دور جدید کے نت نئے نظریات اور مسائل کو اسلام ہی حل کر سکتا ہے۔” مولانا اپنی ایک تحریر میں بیان کرتے ہیں کہ “قران وہ شاہ کلید ہے کہ مسائل حیات کے جس قفل پر بھی میں اسے لگاتا ہوں کھل جاتا ہے ” اسی طرح کے طرز استدلال نے انہیں عالمگیر شہرت بخشی ان کی تصانیف کا 75 زبانوں میں ترجمہ ہوا اور دنیا کی تمام بڑی لائبریریوں میں ان کی لکھی ہوئی تفسیر تفہیم القرآن موجود ہے۔ انکی تحریر میں اتنی ایمانی حرارت تھی کہ ایک امریکن خاتون نے پاکستان آکر اسلام قبول کیا۔انکا اسلامی نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔ صبیحہ احتشام کا کہنا تھا کہ مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کے مفکرین میں موثر ترین مفکر تھے ،ان کی فکر ان کی سوچ اور تصانیف نے اسلامی تحریکوں پر بڑا گہرا اثر ڈالا اور ان کومتحرک کردیا آپ نے تجدید احیائے دین کا کا م کیا آپ اسلامی عقائد سے لیکر اسلام کو نظام دین اور معیشت سیاست معاشرت کے اسلامی اصولوں کی وضاحت بیان کیں۔