پاکستان کی سیاسی فلم

240

پاکستان کی سیاسی تاریخ سنسنی خیز کہانی کی مانند اُتار چڑھاؤ پر مشتمل ایک ایسی سیاسی فلم ہے کہ جس میں کبھی وزیراعظم پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا ہے اور کبھی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کی نوازشات سے اس کے مصاحبین فیضیاب تو ہوئے لیکن ان میں ایک بھی ایسا دیدہ ور نہ نکلا جو کاش قبل ازوقت اپنے ممدوح کو متنبہ کر تا اور آنے والے وقت کا ادراک کرتے ہوئے کچھ تو قبل از وقت سد باب اور تدارک کی فکر اور کوشش کرتا، اس سب نے ہماری صف اول کی مقبول جماعتوں کی سیاسی بصیرت کا راز طشت ازبام کردیا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو اپنے وقت کے مقبول ترین عوامی رہنما سمجھے جاتے تھے، ان کی ذہانت کا ایک عالم معترف تھا۔ لاڑکانہ سے انتخابات میں اپنے مد مقابل جماعت اسلامی کے رہنما مولانا جان محمد عباسی کا اغوا اور سیاست میں ناشائستگی کی شروعات انہوں نے ہی کی تھیں، سیاسی مخالف ائر مارشل (رٹائرڈ) اصغر خان کو ’’آلو‘‘ کہا، خان عبدالقیوم خان کے متعلق ذو معنی ناشائستہ الفاظ کہے اور فخریہ انداز میں اپنی مے نوشی کا تقابلہ جنرل یحییٰ خان سے ایک جلسہ میں کیا۔ نااہل افراد کا اہم مناصب پر تقرر، حزب مخالف کے ممتاز رہنما چودھری ظہور الٰہی پر بھینس کی چوری کا مقدمہ، چوٹی کے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ جیلوں میں فحش شرمناک حرکات، عوام پر بہیمانہ تشدد، خوف و وحشیانہ تشدد اور دہشت کی علامت بد نام زمانہ ٹارچر سیل دلائی کیمپ اور مخالفین کے جلسے جلوسوں میں رکاوٹ بھٹو کی فسطائیت کی صرف چند مثالیں ہیں۔ جونیر ترین لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الحق کو سات سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز پر فوقیت دیتے ہوئے انہیں بری فوج کا سربراہ بنایا، ضیاء الحق کی مْنکَسِرْ المِزاجی کو کچھ لوگوں نے بھٹو کی نظروں میں آنے کے لیے چاپلوسی اور وفاداری وغیرہ جیسے عنوانات دیے۔ ذوالفقار علی بھٹو فَطِین شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے جنرل ضیاء کا تقرر اپنے تئیں کر کے بہت دور اندیشی کا ثبوت دیا تھا اور اس میں ایک پہلو یہ بھی نظر انداز نہیں کیا سکتا کہ ضیاء کی شخصیت کا مذہبی اور تبلیغی تاثر ہونے کی وجہ سے شاید انہیں سیاسی معاملات میں عدم دلچسپی کا مقلد اور حکومتی معاملات کے حوالے سے بھٹو کے اقتدار اور پیپلز پارٹی کے لیے بے ضرر سمجھا گیا، لیکن ہوا کیا، ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کو چلتا کردیا۔

عمران خان نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع دی، آسمان دنیا بھی حیرت زدہ ہو گیا تھا جب (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جو بظاہر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے لیکن اس معاملے پر یہ یک جاں اور دو قالب کے مِصداق یک جاں اور تین قالب نظر آئے، اختلافات بھلا کر سب ایک ہوئے اور جنرل باجوہ کے آلہ کار بنتے ہوئے توسیع ملازمت پر مہر ثبت کر دی، اب تو پی ٹی آئی والے اس حقیقت کا ٹی وی چینلوں پر برملا اظہار اور اعتراف کرتے ہیں کہ جنرل باجوہ کا ایکسٹینشن بہت بڑی غلطی تھی لیکن یہ حقیقت کوئی نہیں بتاتا کہ اتنی بڑی غلطی کیوں اور کس کے ایما پر کی گئی؟، وہ کیا دباؤ تھا کہ جس نے اس اہم معاملے میں ان تینوں جماعتوں کو ایک پیج پر کردیا تھا؟، جب کہ جماعت اسلامی نے حکمت سے اس معاملہ کو دیکھا اور جرأت سے اس اقدام کی مخالفت کی اور توسیع کے خلاف ووٹ بھی دیا۔ اتنے اہم اشو پر سوالات کا جواب دیے بغیر ہم ملک کی سیاسی صورتحال کا نہ صحیح تجزیہ کر سکتے ہیں اور نہ آئندہ کے لیے تدارک۔ مرض کی درست تشخیص کیے بغیر درست علاج ممکن نہیں ورنہ معجزے تو کبھی بھی غیر متوقع نتائج سے ہمکنار کر دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں سب کچھ واضح ہے، اب تمام کا تمام الزام اسٹیبلشمنٹ اور ملبہ اداروں پر ڈالا جارہا ہے لیکن اس راز سے کوئی پردہ نہیں اٹھاتا کہ اسٹیبلشمنٹ تن تنہا کیسے کامیابی سے اپنے مقاصد دہائیوں سے متواتر حاصل کرتے آرہی ہے؟، اس صورتحال کی بڑی اچھی تصویر کَشی ایک ہندوستانی فلم سے ہوتی ہے جس میں ایک مزدور لیڈر فیکٹری کے مزدوروں سے تقریر میں فیکٹری مالکان کے خلاف بہت سخت زبان میں اشتعال انگیز الزامات سے بھرپور تقریر کر رہا تھا اور پھر منظر تبدیل ہوا اور وہ لیڈر مذاکرات کے لیے فیکٹری مالک کے دفتر میں داخل ہوا تو دیکھا گیا کہ وہی لیڈر فیکٹری مالک کی میز کے نیچے دبکا ہوا فیکٹری مالک کے بوٹ پکڑے ہوئے تھا۔

اس وقت ملک ایک گمبھیر صورتحال سے دوچار ہے، پیپلز پارٹی دو متوازی اور مخالف رویوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے یہ رویے اور حقائق ایک دوسرے کی ضد ہیں، دراصل آصف علی زرداری نے اس نکتے کو پا لیا ہے اور وہ ہے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملہ فہمی، اسی کے نتیجے میں شہباز شریف وزیراعظم بنے اور نواز شریف اقتدار سے باہر ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کی آئینی اور اکثریتی حکومت کے خاتمے کے مرکزی کرداروں میں ایک اہم کردار تھے اور محض پی ٹی آئی کی مخالفت میں پیپلز پارٹی جیسی فاشسٹ اور (ن) لیگ جیسی عوام دشمن جماعت کو پی ڈی ایم میں ایک ساتھ بٹھانے اور عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے چلتا کرنے میں اپنی تمام صلاحیتوں اور سیاسی مہارت کا استعمال خوب اور بہت خوب کر چکے ہیں، اب فرنٹ فٹ پر آکر (ن) لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، تینوں کو اپنی ہی وکٹ پر خوب اور بہت خوب کھیل اور کھلا رہے ہیں۔

آپس کی اس رسہ کشی میں یہ بھلا دیا گیا کہ ہمارا اصل دشمن بھارت ہے، ایک خاص مزاج پروان چڑھا کر اور پرورش کر کے عوام کو اپنے ہی اداروں کے مدمقابل کھڑا کر دیا گیا ہے۔ عمران خان کی تَلَوّْن مِزاجی ان کی اپنی سیاسی حکمت عملی کو کسی سمت کا تعین دینے میں مانع ہے۔ اگر علی امین گنڈا پور پنجابی فلموں کے مولا جٹ بنے ہوئے ہیں تو شیر افضل مروت اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کے ان ہی کے حوالے سے ٹی وی اینکرز کے سوالات پر کبھی اپنا موبائل منقطع کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی سب سے پہلے گرفتار ہوتے دکھائی دیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر جہانگیر ترین، علیم خان، علی زیدی اور پرویز خٹک کی طرح بہت سارے فیصل واوڈا پی ٹی آئی کی نرسری میں پرورش پا رہے ہیں، جبکہ عمران خان سے چپراسی اور پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کا لقب پانے والے شیخ رشید اور پرویز الٰہی کی طرح مقربین کا درجہ حاصل کرنے والے کم ہی رہیں گے، اسی طرح بہت سے شاہ محمود قریشی بھی عمران خان کی جگہ لینے کے متمنی ہیں۔ ان تمام حقیقتوں کے باوجود بظاہر پی ٹی آئی میں عمران خان کی نہ کوئی جگہ لے سکتا ہے نہ مقام۔ ایم کیو ایم کے مائنس الطاف حسین کامیاب تجربے اور مائنس نواز شریف کے جاری تجربہ کے بعد بھی مائنس عمران کے نظریے کی کامیابی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ ووٹ بینک پی ٹی آئی یا بلے کے نشان سے نہیں بلکہ عمران خان سے وابستہ ایک زمینی حقیقت ہے۔

اس ملک میں آئین کی دھجیاں صبح و شام بکھیری جا رہی ہیں جبکہ غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، لوگ مایوس لیکن بپھرے ہوئے ہیں، کرپشن اور عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے والوں کے عبرت ناک انجام کے متمنی ہیں۔ زلزلے سے قبل کی خاموشی کی مانند ملک ایک خاموش انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے، کاش حکمراں طبقات اس کا ادراک کر سکیں۔ بنگلا دیش میں سب نے دیکھا کہ عوام کا غیظ و غضب کس طرح حکمرانوں کو بہا کر لے گیا۔ ہمارے یہاں سیاسی پارٹیاں اور پیٹ بھرے ورکرز اور سپورٹرز ایک دوسرے کے خلاف گتھم گتھا، زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں مصروف ہیں لیکن عوام بھاری بجلی بلوں، ناجائز ٹیکس، مہنگائی کے خلاف، مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے جس نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں وہ ’’امید پاکستان‘‘ جد وجہد اور مزاحمت کا استعارہ حافظ نعیم الرحمن سڑکوں پر موجود ہیں اور ایک طویل جدوجہد کے لیے لوگوں کو صف آرا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

پی ٹی آئی الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے کوئی تحریک نہیں چلارہی ہے اور نتیجے میں فارم 47 سے جیتنے والے اور جتانے والے اپنے منطقی انجام کو بھی نہیں پہنچ سکیں گے، کیا صرف مطالبے سے اقتدار ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو سوئچ کیا جا سکتا ہے؟ بظاہر اس تمام صورتحال اور پس منظر کا ایک ہی منطقی نتیجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہندوستانی فلم کے مطابق فیکٹری کا مالک اپنے کمرے میں اطمینان سے بیٹھا رہے گا اور مزدور لیڈر باری باری ضرور بدلتے رہیں گے۔ ایک تیسرا منظر اس فلم میں نہیں دکھایا گیا لیکن وہ اس وقت پاکستان کی سیاست میں جاری و ساری ہے جس کے نتیجے میں حکمران اور فارم 47 سے موجودہ حکومت کے قیام تک کا کھیل اور ایگریمینٹ ہے،

شْومِی قِسمَت کہ اس ایگریمنٹ میں کچھ ایسی خرابیاں ظاہر ہوئیں جو 2018 کے الیکشن میں مکمل کامیابی کے بعد کچھ زیادہ کھل کر کھیلنے کے نتیجے میں 2024 کے الیکشن میں چھپانے کی بہت کوشش کے باوجود چھپ نہیں سکیں۔ یہ سیاسی فلم وطن عزیز میں تب تک چلتی رہے گی جب تک لوگ خود اپنے حقوق کے لیے میدان عمل میں نہیں نکلیں گے۔